باب: سہل کی اس حدیث کی روایت میں راویوں کے اختلاف الفاظ کا ذکر
)
Sunan-nasai:
The Book of Oaths (qasamah), Retaliation and Blood Money
(Chapter: Mentioning The Different Wordings In The Report Of Sahl)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4717.
حضرت سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا: حضرت عبداللہ بن سہل مقتول پائے گئے۔ ان کا بھائی اور اس کے دو چچے حویصہ اور محیصہ، اور وہ دونوں عبداللہ بن سہل کے بھی چچے تھے، رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پیش ہوئے۔ (ان کا بھائی) عبدالرحمن بات کرنے لگا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”بڑے کو بات کرنے دو۔“ انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم نے عبداللہ بن سہل کو خیبر کے ایک کنویں میں مقتول پایا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم کن پر الزام لگاتے ہو؟“ انھوں نے کہا: ہم یہودیوں پر الزام لگاتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تم پچاس قسمیں کھاتے ہو کہ یہودیوں نے اسے قتل کیا ہے؟“ وہ کہنے لگے: ہم ایسی چیز کی قسم کیسے کھا سکتے ہیں جو ہم نے نہیں دیکھی؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”پھر یہودی پچاس قسمیں کھا کر کہ ہم نے اسے قتل نہیں کیا، بری ہو جائیں گے۔“ وہ کہنے لگے: ہم ان مشرکوں کی قسمیں کیسے تسلیم کر لیں؟ تو رسول اللہ ﷺ نے دیت اپنی طرف سے ادا فرما دی۔ مالک بن انس نے یہ روایت مرسل بیان کی ہے۔
تشریح:
”مالک بن انس نے یہ روایت مرسل بیان کی“ امام مالک رحمہ اللہ یہ روایت دو اساتذہ سے بیان کرتے ہیں: ابو لیلیٰ اور یحییٰ بن سعید سے۔ جب وہ یحییٰ بن سعید سے بیان کرتے ہیں تو مرسل بیان کرتے ہیں، یعنی سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کا واسطہ ذکر نہیں کرتے۔ جب ابو لیلیٰ سے بیان کرتے ہیں تو موصول بیان کرتے ہیں، اس لیے امام مالک کی یہ روایت شواہد ومتابعات کی بنا پر صحیح ہے۔ یحییٰ بن سعید کی روایت (۴۷۲۲) آئندہ آ رہی ہے جبکہ ابو لیلیٰ سے مروی روایت اس سے قبل (حدیث: ۴۷۱۴) گزر چکی ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4730
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4731
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4721
تمہید کتاب
٭ تعریف: ’’قسامہ‘‘ اسم مصدر ہے جس کے معنی قسم اٹھانے کے ہیں۔ اصطلاحی طور پر قسامت ان مکرر (پچاس) قسموں کو کہا جاتا ہے جو کسی بے گناہ شخص کے قتل کے اثبات کے لیے دی جائیں۔ اور یہ قسمیں ایک شخص نہیں بلکہ متعدد افراد اٹھائیں گے۔٭ مشروعت: جب کوئی شخص کسی علاقے میں مقتول پایا جائے اور قاتل کا پتہ نہ چلے لیکن کوئی شخص یا قبیلہ متہم ہو تو ایسی صورت میں قسامت مشروع ہے۔ یہ شریعت کا ایک مستقل اصول ہے اور اس کے باقاعدہ احکام ہیں۔ قسم وقضا کے دیگر احکام سے اس کا حکم خاص ہے۔ اس کی مشروعیت کی دلیل اس باب میں مذکور روایات اور اجماع ہے۔٭ شرائط: اہل علم کے اس بارے میں کئی اقوال ہیں، تاہم تین شرائط کا پایا جانا متفقہ طور پر ضروری ہے: (۱) جن کے خلاف قتل کا دعویٰ کیا گیا ہو غالب گمان یہ ہے کہ انھوں نے قتل کیا ہے۔ اور یہ چار طرح سے ممکن ہے۔ کوئی شخص قتل کی گواہی دے جس کی گواہی کا اعتبار نہ کیا جاتا ہو، واضح سبب موجود ہو، دشمنی ہو یا پھر جس علاقے میں مقتول پایا جائے اس علاقے والے قتل کرنے میں معروف ہوں۔ (2) جس کے خلاف دعویٰ دائر کیا گیا ہو وہ مکلف ہو، کسی دیوانے یا بچے کے بارے میں دعوے کا اعتبار نہیں ہوگا۔ (3)جس کے خلاف دعویٰ کیا گیا ہو اس کے قتل کرنے کا امکان بھی ہو، اگر یہ امکان نہ ہو، مثلاً: جن کے خلاف دعویٰ کیا گیا، وہ بہت زیادہ دور ہیں، تو پھر قسامت کے احکام لاگو نہیں ہوں گے۔٭ قسامت کا طریق کار: عمومی قضا میں طریقہ یہ ہوتا ہے کہ مدعی دلیل پیش کرتا ہے۔ اگر وہ دلیل پیش نہ کر سکے تو مدعی ٰ علیہ قسم اٹھا کر اپنے بریٔ الذمہ ہونے کا اظہار کرتا ہے۔ لیکن قسامت میں حاکم وقت مدعی سے پچاس قسموں کا مطالبہ کرتا ہے۔ اگر وہ قسمیں اٹھا لیں تو قصاص یا دیت کے حق دار ٹھہرتے ہیں۔ اور اگر نہ اٹھائیں تو پھر مدعی ٰ علیہ سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ اس کے پچاس قریبی یا متہم قبیلے کے پچاس افراد قسمیں اٹھا کر اپنی براء ت کا اظہار کریں کہ انھوں نے قتل کیا ہے نہ انہیں اس کا علم ہی ہے اگر وہ قسمیں اٹھائیں تو ان سے قصاص یا دیت ساقط ہو جائے گی۔حنابلہ، مالکیہ اور شوافع کا یہی موقف ہے، البتہ احناف کا موقف یہ ہے کہ قسامت میں بھی قسمیں لینے کا آغاز مدعیٰ علیہ فریق سے کیا جائے۔ اس اختلاف کی وجہ روایات کا بظاہر تعارض ہے، تاہم دلائل کے اعتبار سے ائمہ ثلاثہ کا موقف ہی اقرب الی الصواب ہے۔٭ ملاحظہ: مدعی فریق اگر قسمیں اٹھا لے تو پھر مدعی علیہ فریق سے قسموں کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا بلکہ اس سے قصاص یا دیت لی جائے گی۔ دوسری صورت یہ ہے کہ مدعی فریق قسم نہ اٹھائے اور مدعی علیہ فریق قسم اٹھا لے کہ انھوں نے قتل نہیں کیا۔ اس صورت میں مدعی فریق کو کچھ نہیں ملے گا۔ تیسری صورت یہ ہے کہ مدعی علیہ فریق قسمیں کھانے کے لیے تیار ہے لیکن مدعی فریق ان کی قسموں کا (ان کے کافر یا فاسق ہونے کی وجہ سے) اعتبار نہیں کرتا۔ اس صورت میں بھی مدعی علیہ فریق پر قصاص اور دیت نہیں ہوگی، تاہم اس صورت میں بہتر ہے کہ حکومت بیت المال سے مقتول کی دیت ادا کر دے تاکہ مسلمان کا خون رائیگاں نہ جائے۔
حضرت سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا: حضرت عبداللہ بن سہل مقتول پائے گئے۔ ان کا بھائی اور اس کے دو چچے حویصہ اور محیصہ، اور وہ دونوں عبداللہ بن سہل کے بھی چچے تھے، رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پیش ہوئے۔ (ان کا بھائی) عبدالرحمن بات کرنے لگا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”بڑے کو بات کرنے دو۔“ انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم نے عبداللہ بن سہل کو خیبر کے ایک کنویں میں مقتول پایا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم کن پر الزام لگاتے ہو؟“ انھوں نے کہا: ہم یہودیوں پر الزام لگاتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تم پچاس قسمیں کھاتے ہو کہ یہودیوں نے اسے قتل کیا ہے؟“ وہ کہنے لگے: ہم ایسی چیز کی قسم کیسے کھا سکتے ہیں جو ہم نے نہیں دیکھی؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”پھر یہودی پچاس قسمیں کھا کر کہ ہم نے اسے قتل نہیں کیا، بری ہو جائیں گے۔“ وہ کہنے لگے: ہم ان مشرکوں کی قسمیں کیسے تسلیم کر لیں؟ تو رسول اللہ ﷺ نے دیت اپنی طرف سے ادا فرما دی۔ مالک بن انس نے یہ روایت مرسل بیان کی ہے۔
حدیث حاشیہ:
”مالک بن انس نے یہ روایت مرسل بیان کی“ امام مالک رحمہ اللہ یہ روایت دو اساتذہ سے بیان کرتے ہیں: ابو لیلیٰ اور یحییٰ بن سعید سے۔ جب وہ یحییٰ بن سعید سے بیان کرتے ہیں تو مرسل بیان کرتے ہیں، یعنی سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کا واسطہ ذکر نہیں کرتے۔ جب ابو لیلیٰ سے بیان کرتے ہیں تو موصول بیان کرتے ہیں، اس لیے امام مالک کی یہ روایت شواہد ومتابعات کی بنا پر صحیح ہے۔ یحییٰ بن سعید کی روایت (۴۷۲۲) آئندہ آ رہی ہے جبکہ ابو لیلیٰ سے مروی روایت اس سے قبل (حدیث: ۴۷۱۴) گزر چکی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
سہل بن ابی حثمہ ؓ کہتے ہیں کہ عبداللہ بن سہل ؓ مقتول پائے گئے، تو ان کے بھائی اور ان کے چچا حویصہ اور محیصہ ؓ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے، عبدالرحمٰن ؓ بات کرنے لگے، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”بڑوں کا لحاظ کرو، بڑوں کا لحاظ کرو“، ان دونوں نے کہا: اللہ کے رسول! ہم نے خیبر کے ایک کنویں میں عبداللہ بن سہل کو مقتول پایا ہے، آپ نے فرمایا: ”تمہارا شک کس پر ہے؟“ انہوں نے کہا: ہمارا شک یہودیوں پر ہے، آپ نے فرمایا: ”کیا تم پچاس قسمیں کھاؤ گے کہ یہودیوں نے ہی انہیں قتل کیا ہے؟“، انہوں نے کہا: جسے ہم نے دیکھا نہیں، اس پر قسم کیسے کھائیں؟ آپ نے فرمایا: ”تو پھر یہودیوں کی پچاس قسمیں کہ انہوں نے عبداللہ بن سہل کو قتل نہیں کیا ہے، تمہارے شک کو دور کریں گی؟“ وہ بولے: ہم ان کی قسموں پر کیسے رضا مند ہوں جبکہ وہ مشرک ہیں، تو رسول اللہ ﷺ نے اپنے پاس سے ان کی دیت ادا کی۔ مالک بن انس نے اسے مرسلاً روایت کیا ہے (یعنی سہل بن ابی حثمہ کا ذکر نہیں کیا ہے)۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Sahl bin Abi Hathmah that: 'Abdullah bin Sahi Al-Anasri and Muhayysah bin Mas'ud went out to Khaibar and went their separate ways to go about their business. 'Abdullah bin Sahl Al-Anasari was killed and Muhayysah. 'Abdur-Rahman, who was the brother of the victim, and Huwayysah, came to the Messenger of Allah (ﷺ). 'Abdur-Rahman started to speak, but the prophert said to him: "Let the elders speak first." So Muhayysah and Huwayysah spoke and told him about the case of 'Abdullah bin Sahl. The Messenger of Allah (ﷺ) said: "Will you swear fifty oaths, then you will receive compensation or be entitled to retaliate?" They said: "How can we swear an oath when we did not witness (what happened) and we were not there?" The Messenger of Allah (ﷺ) said: "Then can the Jews swear fifty oaths declaring their Announce?" They said: "O Messenger of Allah, how can we accept the oath of a disbelieving people?" So the Messenger of Allah (ﷺ) paid the blood money himself. (One of the narrators) Bushair said: 'One of those camels kicked me in a Mirbad of ours.