Sunan-nasai:
The Book of Oaths (qasamah), Retaliation and Blood Money
(Chapter: Mentioning The Differences Reported From 'Ata' In This Hadith)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4765.
امیہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے بیٹوں حضرت سلمہ اور یعلی ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: ہم غزوۂ تبوک میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ گئے۔ ہمارے ساتھ ہمارا ایک ساتھی بھی تھا۔ وہ کسی دوسرے مسلمان سے لڑ پڑا۔ اس آدمی نے اس کے بازو پر دانت گاڑ دیے۔ اس نے بازو اس کے منہ سے کھینچا تو ساتھ دانت بھی نکل آیا۔ وہ آدمی رسول اللہ ﷺ کے پاس گیا اور دیت دلوانے کا مطالبہ کرنے لگا۔ آپ نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی کو جا کر اس طرح کاٹتا ہے جیسے اونٹ چباتا ہے۔ پھر آکر دیت مانگنا شروع کر دیتا ہے؟ اس (طرح کے دانتوں) کی کوئی دیت نہیں۔“ پھر رسول اللہ ﷺ نے اسے دانت کا کوئی معاوضہ نہ دلوایا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4778
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4779
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4769
تمہید کتاب
٭ تعریف: ’’قسامہ‘‘ اسم مصدر ہے جس کے معنی قسم اٹھانے کے ہیں۔ اصطلاحی طور پر قسامت ان مکرر (پچاس) قسموں کو کہا جاتا ہے جو کسی بے گناہ شخص کے قتل کے اثبات کے لیے دی جائیں۔ اور یہ قسمیں ایک شخص نہیں بلکہ متعدد افراد اٹھائیں گے۔٭ مشروعت: جب کوئی شخص کسی علاقے میں مقتول پایا جائے اور قاتل کا پتہ نہ چلے لیکن کوئی شخص یا قبیلہ متہم ہو تو ایسی صورت میں قسامت مشروع ہے۔ یہ شریعت کا ایک مستقل اصول ہے اور اس کے باقاعدہ احکام ہیں۔ قسم وقضا کے دیگر احکام سے اس کا حکم خاص ہے۔ اس کی مشروعیت کی دلیل اس باب میں مذکور روایات اور اجماع ہے۔٭ شرائط: اہل علم کے اس بارے میں کئی اقوال ہیں، تاہم تین شرائط کا پایا جانا متفقہ طور پر ضروری ہے: (۱) جن کے خلاف قتل کا دعویٰ کیا گیا ہو غالب گمان یہ ہے کہ انھوں نے قتل کیا ہے۔ اور یہ چار طرح سے ممکن ہے۔ کوئی شخص قتل کی گواہی دے جس کی گواہی کا اعتبار نہ کیا جاتا ہو، واضح سبب موجود ہو، دشمنی ہو یا پھر جس علاقے میں مقتول پایا جائے اس علاقے والے قتل کرنے میں معروف ہوں۔ (2) جس کے خلاف دعویٰ دائر کیا گیا ہو وہ مکلف ہو، کسی دیوانے یا بچے کے بارے میں دعوے کا اعتبار نہیں ہوگا۔ (3)جس کے خلاف دعویٰ کیا گیا ہو اس کے قتل کرنے کا امکان بھی ہو، اگر یہ امکان نہ ہو، مثلاً: جن کے خلاف دعویٰ کیا گیا، وہ بہت زیادہ دور ہیں، تو پھر قسامت کے احکام لاگو نہیں ہوں گے۔٭ قسامت کا طریق کار: عمومی قضا میں طریقہ یہ ہوتا ہے کہ مدعی دلیل پیش کرتا ہے۔ اگر وہ دلیل پیش نہ کر سکے تو مدعی ٰ علیہ قسم اٹھا کر اپنے بریٔ الذمہ ہونے کا اظہار کرتا ہے۔ لیکن قسامت میں حاکم وقت مدعی سے پچاس قسموں کا مطالبہ کرتا ہے۔ اگر وہ قسمیں اٹھا لیں تو قصاص یا دیت کے حق دار ٹھہرتے ہیں۔ اور اگر نہ اٹھائیں تو پھر مدعی ٰ علیہ سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ اس کے پچاس قریبی یا متہم قبیلے کے پچاس افراد قسمیں اٹھا کر اپنی براء ت کا اظہار کریں کہ انھوں نے قتل کیا ہے نہ انہیں اس کا علم ہی ہے اگر وہ قسمیں اٹھائیں تو ان سے قصاص یا دیت ساقط ہو جائے گی۔حنابلہ، مالکیہ اور شوافع کا یہی موقف ہے، البتہ احناف کا موقف یہ ہے کہ قسامت میں بھی قسمیں لینے کا آغاز مدعیٰ علیہ فریق سے کیا جائے۔ اس اختلاف کی وجہ روایات کا بظاہر تعارض ہے، تاہم دلائل کے اعتبار سے ائمہ ثلاثہ کا موقف ہی اقرب الی الصواب ہے۔٭ ملاحظہ: مدعی فریق اگر قسمیں اٹھا لے تو پھر مدعی علیہ فریق سے قسموں کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا بلکہ اس سے قصاص یا دیت لی جائے گی۔ دوسری صورت یہ ہے کہ مدعی فریق قسم نہ اٹھائے اور مدعی علیہ فریق قسم اٹھا لے کہ انھوں نے قتل نہیں کیا۔ اس صورت میں مدعی فریق کو کچھ نہیں ملے گا۔ تیسری صورت یہ ہے کہ مدعی علیہ فریق قسمیں کھانے کے لیے تیار ہے لیکن مدعی فریق ان کی قسموں کا (ان کے کافر یا فاسق ہونے کی وجہ سے) اعتبار نہیں کرتا۔ اس صورت میں بھی مدعی علیہ فریق پر قصاص اور دیت نہیں ہوگی، تاہم اس صورت میں بہتر ہے کہ حکومت بیت المال سے مقتول کی دیت ادا کر دے تاکہ مسلمان کا خون رائیگاں نہ جائے۔
امیہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے بیٹوں حضرت سلمہ اور یعلی ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: ہم غزوۂ تبوک میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ گئے۔ ہمارے ساتھ ہمارا ایک ساتھی بھی تھا۔ وہ کسی دوسرے مسلمان سے لڑ پڑا۔ اس آدمی نے اس کے بازو پر دانت گاڑ دیے۔ اس نے بازو اس کے منہ سے کھینچا تو ساتھ دانت بھی نکل آیا۔ وہ آدمی رسول اللہ ﷺ کے پاس گیا اور دیت دلوانے کا مطالبہ کرنے لگا۔ آپ نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی کو جا کر اس طرح کاٹتا ہے جیسے اونٹ چباتا ہے۔ پھر آکر دیت مانگنا شروع کر دیتا ہے؟ اس (طرح کے دانتوں) کی کوئی دیت نہیں۔“ پھر رسول اللہ ﷺ نے اسے دانت کا کوئی معاوضہ نہ دلوایا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
سلمہ بن امیہ اور یعلیٰ بن امیہ ؓ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ غزوہ تبوک میں نکلے، ہمارے ساتھ ایک اور ساتھی تھے وہ کسی مسلمان سے لڑ پڑے، اس نے ان کے ہاتھ میں دانت کاٹ لیا، انہوں نے ہاتھ اس کے منہ سے کھینچا تو اس کا دانت اکھڑ گیا، وہ شخص نبی اکرم ﷺ کے پاس دیت کا مطالبہ کرنے آیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”تم میں سے ایک آدمی اپنے بھائی کے پاس جا کر اونٹ کی طرح اسے دانت کاٹتا ہے، پھر دیت مانگنے آتا ہے، ایسے دانت کی کوئی دیت نہیں“، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے اسے دیت نہیں دلوائی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Safwan bin 'Abdullah that his two paternal uncles, Salamah and Ya'la, the sons of Umayyah, said: "We went out with the Messenger of Allah (ﷺ) on the campaign of Tabuk, and there was a friend of ours with us, who fought with a man from among the Muslims. The man bit him on the forearm, so he pulled it away from his mouth and a tooth fell out. The man came to the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم), seeking blood money, but his brother and bite him like a stallion bites, then come and demand blood money? There is no blood money for that." And the Messenger of Allah (ﷺ) juddgedit to be invalid.