Sunan-nasai:
The Book of Oaths (qasamah), Retaliation and Blood Money
(Chapter: Mentioning The Differences Reported From Khalid Al-Hadha)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4795.
حضرت عقبہ بن اوس سے منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص کوڑے یا ڈنڈے سونٹے کے ساتھ غلطی سے مارا جائے، اس کی دیت مغلظہ، یعنی سخت ہوگی، سو اونٹ جن میں سے چالیس اونٹنیاں حاملہ ہوں۔“
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4808
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4809
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4799
تمہید کتاب
٭ تعریف: ’’قسامہ‘‘ اسم مصدر ہے جس کے معنی قسم اٹھانے کے ہیں۔ اصطلاحی طور پر قسامت ان مکرر (پچاس) قسموں کو کہا جاتا ہے جو کسی بے گناہ شخص کے قتل کے اثبات کے لیے دی جائیں۔ اور یہ قسمیں ایک شخص نہیں بلکہ متعدد افراد اٹھائیں گے۔٭ مشروعت: جب کوئی شخص کسی علاقے میں مقتول پایا جائے اور قاتل کا پتہ نہ چلے لیکن کوئی شخص یا قبیلہ متہم ہو تو ایسی صورت میں قسامت مشروع ہے۔ یہ شریعت کا ایک مستقل اصول ہے اور اس کے باقاعدہ احکام ہیں۔ قسم وقضا کے دیگر احکام سے اس کا حکم خاص ہے۔ اس کی مشروعیت کی دلیل اس باب میں مذکور روایات اور اجماع ہے۔٭ شرائط: اہل علم کے اس بارے میں کئی اقوال ہیں، تاہم تین شرائط کا پایا جانا متفقہ طور پر ضروری ہے: (۱) جن کے خلاف قتل کا دعویٰ کیا گیا ہو غالب گمان یہ ہے کہ انھوں نے قتل کیا ہے۔ اور یہ چار طرح سے ممکن ہے۔ کوئی شخص قتل کی گواہی دے جس کی گواہی کا اعتبار نہ کیا جاتا ہو، واضح سبب موجود ہو، دشمنی ہو یا پھر جس علاقے میں مقتول پایا جائے اس علاقے والے قتل کرنے میں معروف ہوں۔ (2) جس کے خلاف دعویٰ دائر کیا گیا ہو وہ مکلف ہو، کسی دیوانے یا بچے کے بارے میں دعوے کا اعتبار نہیں ہوگا۔ (3)جس کے خلاف دعویٰ کیا گیا ہو اس کے قتل کرنے کا امکان بھی ہو، اگر یہ امکان نہ ہو، مثلاً: جن کے خلاف دعویٰ کیا گیا، وہ بہت زیادہ دور ہیں، تو پھر قسامت کے احکام لاگو نہیں ہوں گے۔٭ قسامت کا طریق کار: عمومی قضا میں طریقہ یہ ہوتا ہے کہ مدعی دلیل پیش کرتا ہے۔ اگر وہ دلیل پیش نہ کر سکے تو مدعی ٰ علیہ قسم اٹھا کر اپنے بریٔ الذمہ ہونے کا اظہار کرتا ہے۔ لیکن قسامت میں حاکم وقت مدعی سے پچاس قسموں کا مطالبہ کرتا ہے۔ اگر وہ قسمیں اٹھا لیں تو قصاص یا دیت کے حق دار ٹھہرتے ہیں۔ اور اگر نہ اٹھائیں تو پھر مدعی ٰ علیہ سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ اس کے پچاس قریبی یا متہم قبیلے کے پچاس افراد قسمیں اٹھا کر اپنی براء ت کا اظہار کریں کہ انھوں نے قتل کیا ہے نہ انہیں اس کا علم ہی ہے اگر وہ قسمیں اٹھائیں تو ان سے قصاص یا دیت ساقط ہو جائے گی۔حنابلہ، مالکیہ اور شوافع کا یہی موقف ہے، البتہ احناف کا موقف یہ ہے کہ قسامت میں بھی قسمیں لینے کا آغاز مدعیٰ علیہ فریق سے کیا جائے۔ اس اختلاف کی وجہ روایات کا بظاہر تعارض ہے، تاہم دلائل کے اعتبار سے ائمہ ثلاثہ کا موقف ہی اقرب الی الصواب ہے۔٭ ملاحظہ: مدعی فریق اگر قسمیں اٹھا لے تو پھر مدعی علیہ فریق سے قسموں کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا بلکہ اس سے قصاص یا دیت لی جائے گی۔ دوسری صورت یہ ہے کہ مدعی فریق قسم نہ اٹھائے اور مدعی علیہ فریق قسم اٹھا لے کہ انھوں نے قتل نہیں کیا۔ اس صورت میں مدعی فریق کو کچھ نہیں ملے گا۔ تیسری صورت یہ ہے کہ مدعی علیہ فریق قسمیں کھانے کے لیے تیار ہے لیکن مدعی فریق ان کی قسموں کا (ان کے کافر یا فاسق ہونے کی وجہ سے) اعتبار نہیں کرتا۔ اس صورت میں بھی مدعی علیہ فریق پر قصاص اور دیت نہیں ہوگی، تاہم اس صورت میں بہتر ہے کہ حکومت بیت المال سے مقتول کی دیت ادا کر دے تاکہ مسلمان کا خون رائیگاں نہ جائے۔
تمہید باب
اس اختلاف کی وضاحت کچھ اس طرح سے ہے کہ خالد الخداء سے مذکورہ روایت بیان کرنے والے: حماد بن زید، ہشیم، ابن ابی عدی، بشر بن مفضل اور یزید ہیں۔ حماد بن زید، خالد خداء سے بیان کرتے ہیں تو کہتے ہیں:عن خالد عن القاسم بن ربيعة عن عقبة بن أوس عن عبدالله أن رسول الله هشيم، خالد خداء سے بیان کرتے ہیں تو یوں کہتے ہیں: عن خالد عن القاسم بن ربيعة ، عن عقبة بن أوس عن رجل من أصحاب النبىﷺقال :حطب النبى ﷺ۔ مطلب یہ کہ ہشیم نے حماد بن زید کی مخالفت کی۔ حماد کی روایت میں تھا: عن عقبۃ بن اوس، عن عبداللہ، جبکہ ہشیم کی روایت میں ہے: عن عقبة بن أوس عن رجل من أصحاب النبىﷺ، یعنی صحابی کا نام مبہم ہے۔ ابن ابی عدی نے حماد اور ہشیم دونوں کی مخالفت کی اور یوں کہا عن القاسمعن عقبة بن أوسأن رسول اللهﷺ…، یعنی انھوں نے رویت مرسل بیان کی جبکہ پہلے دونوں بزرگوں نے متصل بیان کی تھی۔ البتہ حماد نے صحابی کا نام عبداللہ بیان کیا تھا اور ہشیم نے نام مبہم رکھا۔ بشر بن مفضل اور یزید بن زریع نے خالد خداء سے بیان کیا تو مذکورہ تینوں بزرگوں: حماد، ہشیم اور ابن ابی عدی کی مخالفت کی اور کہا: عن القاسم بن ربيعة‘عن یعقوب بن أوس عن رجل من أصحاب النبىﷺ…، یعنی ان دونوں نے قاسم کے شیخ کا نام یعقوب لیا اور صحابی کو مبہم ہی رکھا۔ دراصل یعقوب بن اوس، عقبہ بن اوس ہی ہیں، اس لیے اس اختلاف کی کوئی حیثیت نہیں، نیز اس تمام تر اختلاف کے باوجود روایت صحیح ہے اور اس میں تطبیق ممکن ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرۃ العقبیٰ شرح سنن النسائی للاتبوبی: 36/ 159، 160) واللهاعلم
حضرت عقبہ بن اوس سے منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص کوڑے یا ڈنڈے سونٹے کے ساتھ غلطی سے مارا جائے، اس کی دیت مغلظہ، یعنی سخت ہوگی، سو اونٹ جن میں سے چالیس اونٹنیاں حاملہ ہوں۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عقبہ بن اوس سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”سنو! جو قتل خطا میں یعنی شبہ عمد کے طور پر کوڑے یا ڈنڈے سے مر جائے تو اس کی دیت مغلظہ سو اونٹ ہے، ان میں چالیس حاملہ اونٹنیاں ہوں۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from 'Uqbah bin 'Aws, that the Mssenger of Allah said: "Indeed the accidental killing, the killing with a whip or stick, for it (the Diyah) is one hundred camels - a severe penalty - of which forty should be (she-camels) with their young in their wombs.