Sunan-nasai:
The Book of Oaths (qasamah), Retaliation and Blood Money
(Chapter: Mention Of The Diyah In Silver)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4804.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے دیت بارہ ہزار درہم مقرر فرمائی۔
تشریح:
(1) مذکورہ بالا دونوں روایات کی صحت مرفوعاً محل نظر ہے۔ راجح بات یہ ہے کہ یہ روایت مرسل ہے، تاہم بارہ ہزار درہم کے بارے میں یہ بات صحیح سند سے مروی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اونٹوں کی قیمت کا حساب لگا کر بارہ ہزار درہم مقرر کیے تھے۔ (سنن أبي داود، حدیث: ۴۵۴۲) مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (الإرواء: ۷/ ۳۰۴، ذخیرة العقبیٰ شرح سنن النسائي: ۳۶، ۱۸۶) (2) اصل دیت تو اونٹ ہیں جن کی تفصیل پیچھے بیان ہو چکی ہے۔ اگر سونے چاندی یا سکوں میں دیت دینا ہو تو مذکورہ صفات کے اونٹوں کی قیمت دینا ہوگی جو علاقے اور زمانے کے لحاظ سے بدلتی رہتی ہے۔
الحکم التفصیلی:
قلت : وصله ابن أبي شيبه في ( المصنف ) ( 11 / 1 / 2 ) : نا سفيان بن عيينه به . وكذا وصله الترمذي من طريق أخرى عن سفيان به مرسلا . وأخرجه النسائي والدار قطني وعنه البيهقي من طريق محمد بن ميمون الخياط المكي نا سفيان بن عيينه عن عمرو بن دينار عن عكرمة عن ابن عباس به مختصرا بلفظ : ( قضى بإثني عشر ألفا في الدية ) قال محمد بن ميمون : وإنما قال لنا فيه ( عن ابن عباس ) مرة واحدة وأكثر من ذلك كان يقول عن عكرمة عن النبي صلى الله عليه وسلم ) . قلت : ومحمد بن ميمون هذا قال الحافظ في ( التقريب ) : ( صدوق ربما أخطأ ) . فإن كان حفظه عن سفيان فهو دليل على أن سفيان نفسه كان يضطرب فيه فتارة يوصله وتارة يرسله وهو الأكثر ويؤيد إرساله رواية ابن ابي شيبه والترمذي من طريقين كما سبق عن سفيان به مرسلا . وهو الصواب والطائفي الذي رواه مرسلا عن ضعيف الحفظ والله أعلم قلت : وهذا ضعيف أيضا الحجاج مدلس وقد عنعنه
قلت : وهذا سند ضعيف أيضا الحجاج مدلس وقد عنعنه
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4817
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4818
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4808
تمہید کتاب
٭ تعریف: ’’قسامہ‘‘ اسم مصدر ہے جس کے معنی قسم اٹھانے کے ہیں۔ اصطلاحی طور پر قسامت ان مکرر (پچاس) قسموں کو کہا جاتا ہے جو کسی بے گناہ شخص کے قتل کے اثبات کے لیے دی جائیں۔ اور یہ قسمیں ایک شخص نہیں بلکہ متعدد افراد اٹھائیں گے۔٭ مشروعت: جب کوئی شخص کسی علاقے میں مقتول پایا جائے اور قاتل کا پتہ نہ چلے لیکن کوئی شخص یا قبیلہ متہم ہو تو ایسی صورت میں قسامت مشروع ہے۔ یہ شریعت کا ایک مستقل اصول ہے اور اس کے باقاعدہ احکام ہیں۔ قسم وقضا کے دیگر احکام سے اس کا حکم خاص ہے۔ اس کی مشروعیت کی دلیل اس باب میں مذکور روایات اور اجماع ہے۔٭ شرائط: اہل علم کے اس بارے میں کئی اقوال ہیں، تاہم تین شرائط کا پایا جانا متفقہ طور پر ضروری ہے: (۱) جن کے خلاف قتل کا دعویٰ کیا گیا ہو غالب گمان یہ ہے کہ انھوں نے قتل کیا ہے۔ اور یہ چار طرح سے ممکن ہے۔ کوئی شخص قتل کی گواہی دے جس کی گواہی کا اعتبار نہ کیا جاتا ہو، واضح سبب موجود ہو، دشمنی ہو یا پھر جس علاقے میں مقتول پایا جائے اس علاقے والے قتل کرنے میں معروف ہوں۔ (2) جس کے خلاف دعویٰ دائر کیا گیا ہو وہ مکلف ہو، کسی دیوانے یا بچے کے بارے میں دعوے کا اعتبار نہیں ہوگا۔ (3)جس کے خلاف دعویٰ کیا گیا ہو اس کے قتل کرنے کا امکان بھی ہو، اگر یہ امکان نہ ہو، مثلاً: جن کے خلاف دعویٰ کیا گیا، وہ بہت زیادہ دور ہیں، تو پھر قسامت کے احکام لاگو نہیں ہوں گے۔٭ قسامت کا طریق کار: عمومی قضا میں طریقہ یہ ہوتا ہے کہ مدعی دلیل پیش کرتا ہے۔ اگر وہ دلیل پیش نہ کر سکے تو مدعی ٰ علیہ قسم اٹھا کر اپنے بریٔ الذمہ ہونے کا اظہار کرتا ہے۔ لیکن قسامت میں حاکم وقت مدعی سے پچاس قسموں کا مطالبہ کرتا ہے۔ اگر وہ قسمیں اٹھا لیں تو قصاص یا دیت کے حق دار ٹھہرتے ہیں۔ اور اگر نہ اٹھائیں تو پھر مدعی ٰ علیہ سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ اس کے پچاس قریبی یا متہم قبیلے کے پچاس افراد قسمیں اٹھا کر اپنی براء ت کا اظہار کریں کہ انھوں نے قتل کیا ہے نہ انہیں اس کا علم ہی ہے اگر وہ قسمیں اٹھائیں تو ان سے قصاص یا دیت ساقط ہو جائے گی۔حنابلہ، مالکیہ اور شوافع کا یہی موقف ہے، البتہ احناف کا موقف یہ ہے کہ قسامت میں بھی قسمیں لینے کا آغاز مدعیٰ علیہ فریق سے کیا جائے۔ اس اختلاف کی وجہ روایات کا بظاہر تعارض ہے، تاہم دلائل کے اعتبار سے ائمہ ثلاثہ کا موقف ہی اقرب الی الصواب ہے۔٭ ملاحظہ: مدعی فریق اگر قسمیں اٹھا لے تو پھر مدعی علیہ فریق سے قسموں کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا بلکہ اس سے قصاص یا دیت لی جائے گی۔ دوسری صورت یہ ہے کہ مدعی فریق قسم نہ اٹھائے اور مدعی علیہ فریق قسم اٹھا لے کہ انھوں نے قتل نہیں کیا۔ اس صورت میں مدعی فریق کو کچھ نہیں ملے گا۔ تیسری صورت یہ ہے کہ مدعی علیہ فریق قسمیں کھانے کے لیے تیار ہے لیکن مدعی فریق ان کی قسموں کا (ان کے کافر یا فاسق ہونے کی وجہ سے) اعتبار نہیں کرتا۔ اس صورت میں بھی مدعی علیہ فریق پر قصاص اور دیت نہیں ہوگی، تاہم اس صورت میں بہتر ہے کہ حکومت بیت المال سے مقتول کی دیت ادا کر دے تاکہ مسلمان کا خون رائیگاں نہ جائے۔
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے دیت بارہ ہزار درہم مقرر فرمائی۔
حدیث حاشیہ:
(1) مذکورہ بالا دونوں روایات کی صحت مرفوعاً محل نظر ہے۔ راجح بات یہ ہے کہ یہ روایت مرسل ہے، تاہم بارہ ہزار درہم کے بارے میں یہ بات صحیح سند سے مروی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اونٹوں کی قیمت کا حساب لگا کر بارہ ہزار درہم مقرر کیے تھے۔ (سنن أبي داود، حدیث: ۴۵۴۲) مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (الإرواء: ۷/ ۳۰۴، ذخیرة العقبیٰ شرح سنن النسائي: ۳۶، ۱۸۶) (2) اصل دیت تو اونٹ ہیں جن کی تفصیل پیچھے بیان ہو چکی ہے۔ اگر سونے چاندی یا سکوں میں دیت دینا ہو تو مذکورہ صفات کے اونٹوں کی قیمت دینا ہوگی جو علاقے اور زمانے کے لحاظ سے بدلتی رہتی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے بارہ ہزار درہم کا فیصلہ کیا یعنی دیت میں۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Ibn 'Abbas that: the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) ruled that twelve thousand (should be given) as Diyah. (Hasan)