Sunan-nasai:
The Book of Oaths (qasamah), Retaliation and Blood Money
(Chapter: The Diyah Of A Woman)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4805.
حضرت عمرو بن شعیب کے پردادا (حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”عورت کی دیت مرد کے برابر ہے حتیٰ کہ تہائی کو پہنچ جائے۔“
تشریح:
الحکم التفصیلی:
قلت : وهذا إسناد ضعيف وله علتان : الأولى : عنعنة ابن جريج فإنه مدلس . والأخرى : ضعف إسماعيل بن عياش في روايته عن الحجازيين وهذه منها وقال الحافظ في ( التلخيص ) ( 4 / 25 ) : ( قال الشافعي : وكان مالك يذكر أنه السنة وكنت أتابعه عليه وفي نفسي منه شئ ثم علمت أنه يريد سنة أهل المدينة فرجعت عنه )
التعليق على الروضة الندية ( 2 / 310 ) // ضعيف الجامع الصغير ( 3719 ) //
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4818
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4819
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4809
تمہید کتاب
٭ تعریف: ’’قسامہ‘‘ اسم مصدر ہے جس کے معنی قسم اٹھانے کے ہیں۔ اصطلاحی طور پر قسامت ان مکرر (پچاس) قسموں کو کہا جاتا ہے جو کسی بے گناہ شخص کے قتل کے اثبات کے لیے دی جائیں۔ اور یہ قسمیں ایک شخص نہیں بلکہ متعدد افراد اٹھائیں گے۔٭ مشروعت: جب کوئی شخص کسی علاقے میں مقتول پایا جائے اور قاتل کا پتہ نہ چلے لیکن کوئی شخص یا قبیلہ متہم ہو تو ایسی صورت میں قسامت مشروع ہے۔ یہ شریعت کا ایک مستقل اصول ہے اور اس کے باقاعدہ احکام ہیں۔ قسم وقضا کے دیگر احکام سے اس کا حکم خاص ہے۔ اس کی مشروعیت کی دلیل اس باب میں مذکور روایات اور اجماع ہے۔٭ شرائط: اہل علم کے اس بارے میں کئی اقوال ہیں، تاہم تین شرائط کا پایا جانا متفقہ طور پر ضروری ہے: (۱) جن کے خلاف قتل کا دعویٰ کیا گیا ہو غالب گمان یہ ہے کہ انھوں نے قتل کیا ہے۔ اور یہ چار طرح سے ممکن ہے۔ کوئی شخص قتل کی گواہی دے جس کی گواہی کا اعتبار نہ کیا جاتا ہو، واضح سبب موجود ہو، دشمنی ہو یا پھر جس علاقے میں مقتول پایا جائے اس علاقے والے قتل کرنے میں معروف ہوں۔ (2) جس کے خلاف دعویٰ دائر کیا گیا ہو وہ مکلف ہو، کسی دیوانے یا بچے کے بارے میں دعوے کا اعتبار نہیں ہوگا۔ (3)جس کے خلاف دعویٰ کیا گیا ہو اس کے قتل کرنے کا امکان بھی ہو، اگر یہ امکان نہ ہو، مثلاً: جن کے خلاف دعویٰ کیا گیا، وہ بہت زیادہ دور ہیں، تو پھر قسامت کے احکام لاگو نہیں ہوں گے۔٭ قسامت کا طریق کار: عمومی قضا میں طریقہ یہ ہوتا ہے کہ مدعی دلیل پیش کرتا ہے۔ اگر وہ دلیل پیش نہ کر سکے تو مدعی ٰ علیہ قسم اٹھا کر اپنے بریٔ الذمہ ہونے کا اظہار کرتا ہے۔ لیکن قسامت میں حاکم وقت مدعی سے پچاس قسموں کا مطالبہ کرتا ہے۔ اگر وہ قسمیں اٹھا لیں تو قصاص یا دیت کے حق دار ٹھہرتے ہیں۔ اور اگر نہ اٹھائیں تو پھر مدعی ٰ علیہ سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ اس کے پچاس قریبی یا متہم قبیلے کے پچاس افراد قسمیں اٹھا کر اپنی براء ت کا اظہار کریں کہ انھوں نے قتل کیا ہے نہ انہیں اس کا علم ہی ہے اگر وہ قسمیں اٹھائیں تو ان سے قصاص یا دیت ساقط ہو جائے گی۔حنابلہ، مالکیہ اور شوافع کا یہی موقف ہے، البتہ احناف کا موقف یہ ہے کہ قسامت میں بھی قسمیں لینے کا آغاز مدعیٰ علیہ فریق سے کیا جائے۔ اس اختلاف کی وجہ روایات کا بظاہر تعارض ہے، تاہم دلائل کے اعتبار سے ائمہ ثلاثہ کا موقف ہی اقرب الی الصواب ہے۔٭ ملاحظہ: مدعی فریق اگر قسمیں اٹھا لے تو پھر مدعی علیہ فریق سے قسموں کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا بلکہ اس سے قصاص یا دیت لی جائے گی۔ دوسری صورت یہ ہے کہ مدعی فریق قسم نہ اٹھائے اور مدعی علیہ فریق قسم اٹھا لے کہ انھوں نے قتل نہیں کیا۔ اس صورت میں مدعی فریق کو کچھ نہیں ملے گا۔ تیسری صورت یہ ہے کہ مدعی علیہ فریق قسمیں کھانے کے لیے تیار ہے لیکن مدعی فریق ان کی قسموں کا (ان کے کافر یا فاسق ہونے کی وجہ سے) اعتبار نہیں کرتا۔ اس صورت میں بھی مدعی علیہ فریق پر قصاص اور دیت نہیں ہوگی، تاہم اس صورت میں بہتر ہے کہ حکومت بیت المال سے مقتول کی دیت ادا کر دے تاکہ مسلمان کا خون رائیگاں نہ جائے۔
حضرت عمرو بن شعیب کے پردادا (حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”عورت کی دیت مرد کے برابر ہے حتیٰ کہ تہائی کو پہنچ جائے۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عمرو ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”عورت کی دیت ایک تہائی دیت تک مرد کی دیت کی طرح ہے۔“
حدیث حاشیہ:
۱؎ : یہ حدیث اصول حدیث کے حساب سے ضعیف ہے، مگر جمہور علماء کا یہی قول ہے، بلکہ بعض لوگوں نے اس پر اجماع نقل کیا ہے، اور یہ کہ ابن خزیمہ نے اس حدیث کی تصحیح کی ہے حدیث کا مطلب یہ ہے کہ مرد کی مکمل دیت سو اونٹ ہے اور عورت کے قتل عمد و شبہ عمد و خطا میں آدھی دیت پچاس اونٹ واجب الاداء ہوں گے، لیکن اگر اعضاء کے تلف کرنے کی دیت ہو تو جیسے ایک انگلی کی دیت دس اونٹ ہیں، مان لیا کہ کسی نے کسی عورت کی چار انگلیاں توڑ دیں تو ان کی دیت چالیس اونٹ ہوئے جو سو کے ثلث (۳۳) سے زیادہ ہو گئے تو اب انگلیاں توڑنے والے پر صرف بیس (۲۰) اونٹ واجب ہوں گے، (علی ھذا القیاس)۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from 'Amr bin Shu'aib, from his father, that his grandfather said: "The Messenger of Allah (ﷺ) said: 'The blood money of a woman (in the event of injury) is like the blood money of a man, up to one-third of the Diyah (for her life).