Sunan-nasai:
The Book of Oaths (qasamah), Retaliation and Blood Money
(Chapter: The Diyah For A Woman's Fetus)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4821.
حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ ایک عورت نے اپنی سوکن کو خیمے کی لکڑی دے ماری اور اسے قتل کر دیا جبکہ وہ حاملہ تھی۔ (لہٰذا حمل بھی ضائع ہوگیا)۔ یہ مقدمہ نبی اکرم ﷺ کے پاس لایا گیا تو رسول اللہ ﷺ نے فیصلہ فرمایا کہ قاتل عورت کے عصبے (مقتولہ کی) دیت بھریں، نیز پیٹ کے بچے کے بدلے غرہ دیں۔ اس عورت کا عصبہ کہنے لگا: کیا میں ایسے بچے کی دیت دوں جس نے پیا نہ کھایا، چیخا نہ چلایا؟ ایسا بچہ تو کسی شمار وقطار میں نہیں ہونا چاہیے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”یہ تو اعرابیوں جیسی تک بندی کرتا ہے۔“
تشریح:
(1) ”ایسا بچہ“ یعنی جو زندہ پیدا نہیں ہوا بلکہ پیدا ہونے سے پہلے فوت ہوگیا۔ (2) ”اعرابیوں جیسی“ اعرابی لوگ فصیح وبلیغ زبان بولتے تھے اور اعلیٰ درجے کے شاعر ہوتے تھے، نیز وہ مسجع کلام کیا کرتے تھے۔ (3) ”تک بندی“ یعنی مسجع کلام جس کے جملے ہم آہنگ ہوں۔ ہر جملے کے آخر میں ایک جیسے الفاظ آئیں جیسے اشعار میں ہوتا ہے مگر وزن ایک نہیں ہوتا۔ (4) اس روایت میں ہے کہ اس عورت نے خیمے کی چوب، یعنی لکڑی ماری تھی جبکہ بعض روایات میں ہے کہ اس نے پتھر مارا تھا۔ ان میں تطبیق اس طرح ہے کہ ممکن ہے اس نے دونوں چیزیں ماری ہوں، کسی راوی نے ایک چیز بیان کر دی کسی نے دوسری۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4835
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4836
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4825
تمہید کتاب
٭ تعریف: ’’قسامہ‘‘ اسم مصدر ہے جس کے معنی قسم اٹھانے کے ہیں۔ اصطلاحی طور پر قسامت ان مکرر (پچاس) قسموں کو کہا جاتا ہے جو کسی بے گناہ شخص کے قتل کے اثبات کے لیے دی جائیں۔ اور یہ قسمیں ایک شخص نہیں بلکہ متعدد افراد اٹھائیں گے۔٭ مشروعت: جب کوئی شخص کسی علاقے میں مقتول پایا جائے اور قاتل کا پتہ نہ چلے لیکن کوئی شخص یا قبیلہ متہم ہو تو ایسی صورت میں قسامت مشروع ہے۔ یہ شریعت کا ایک مستقل اصول ہے اور اس کے باقاعدہ احکام ہیں۔ قسم وقضا کے دیگر احکام سے اس کا حکم خاص ہے۔ اس کی مشروعیت کی دلیل اس باب میں مذکور روایات اور اجماع ہے۔٭ شرائط: اہل علم کے اس بارے میں کئی اقوال ہیں، تاہم تین شرائط کا پایا جانا متفقہ طور پر ضروری ہے: (۱) جن کے خلاف قتل کا دعویٰ کیا گیا ہو غالب گمان یہ ہے کہ انھوں نے قتل کیا ہے۔ اور یہ چار طرح سے ممکن ہے۔ کوئی شخص قتل کی گواہی دے جس کی گواہی کا اعتبار نہ کیا جاتا ہو، واضح سبب موجود ہو، دشمنی ہو یا پھر جس علاقے میں مقتول پایا جائے اس علاقے والے قتل کرنے میں معروف ہوں۔ (2) جس کے خلاف دعویٰ دائر کیا گیا ہو وہ مکلف ہو، کسی دیوانے یا بچے کے بارے میں دعوے کا اعتبار نہیں ہوگا۔ (3)جس کے خلاف دعویٰ کیا گیا ہو اس کے قتل کرنے کا امکان بھی ہو، اگر یہ امکان نہ ہو، مثلاً: جن کے خلاف دعویٰ کیا گیا، وہ بہت زیادہ دور ہیں، تو پھر قسامت کے احکام لاگو نہیں ہوں گے۔٭ قسامت کا طریق کار: عمومی قضا میں طریقہ یہ ہوتا ہے کہ مدعی دلیل پیش کرتا ہے۔ اگر وہ دلیل پیش نہ کر سکے تو مدعی ٰ علیہ قسم اٹھا کر اپنے بریٔ الذمہ ہونے کا اظہار کرتا ہے۔ لیکن قسامت میں حاکم وقت مدعی سے پچاس قسموں کا مطالبہ کرتا ہے۔ اگر وہ قسمیں اٹھا لیں تو قصاص یا دیت کے حق دار ٹھہرتے ہیں۔ اور اگر نہ اٹھائیں تو پھر مدعی ٰ علیہ سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ اس کے پچاس قریبی یا متہم قبیلے کے پچاس افراد قسمیں اٹھا کر اپنی براء ت کا اظہار کریں کہ انھوں نے قتل کیا ہے نہ انہیں اس کا علم ہی ہے اگر وہ قسمیں اٹھائیں تو ان سے قصاص یا دیت ساقط ہو جائے گی۔حنابلہ، مالکیہ اور شوافع کا یہی موقف ہے، البتہ احناف کا موقف یہ ہے کہ قسامت میں بھی قسمیں لینے کا آغاز مدعیٰ علیہ فریق سے کیا جائے۔ اس اختلاف کی وجہ روایات کا بظاہر تعارض ہے، تاہم دلائل کے اعتبار سے ائمہ ثلاثہ کا موقف ہی اقرب الی الصواب ہے۔٭ ملاحظہ: مدعی فریق اگر قسمیں اٹھا لے تو پھر مدعی علیہ فریق سے قسموں کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا بلکہ اس سے قصاص یا دیت لی جائے گی۔ دوسری صورت یہ ہے کہ مدعی فریق قسم نہ اٹھائے اور مدعی علیہ فریق قسم اٹھا لے کہ انھوں نے قتل نہیں کیا۔ اس صورت میں مدعی فریق کو کچھ نہیں ملے گا۔ تیسری صورت یہ ہے کہ مدعی علیہ فریق قسمیں کھانے کے لیے تیار ہے لیکن مدعی فریق ان کی قسموں کا (ان کے کافر یا فاسق ہونے کی وجہ سے) اعتبار نہیں کرتا۔ اس صورت میں بھی مدعی علیہ فریق پر قصاص اور دیت نہیں ہوگی، تاہم اس صورت میں بہتر ہے کہ حکومت بیت المال سے مقتول کی دیت ادا کر دے تاکہ مسلمان کا خون رائیگاں نہ جائے۔
حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ ایک عورت نے اپنی سوکن کو خیمے کی لکڑی دے ماری اور اسے قتل کر دیا جبکہ وہ حاملہ تھی۔ (لہٰذا حمل بھی ضائع ہوگیا)۔ یہ مقدمہ نبی اکرم ﷺ کے پاس لایا گیا تو رسول اللہ ﷺ نے فیصلہ فرمایا کہ قاتل عورت کے عصبے (مقتولہ کی) دیت بھریں، نیز پیٹ کے بچے کے بدلے غرہ دیں۔ اس عورت کا عصبہ کہنے لگا: کیا میں ایسے بچے کی دیت دوں جس نے پیا نہ کھایا، چیخا نہ چلایا؟ ایسا بچہ تو کسی شمار وقطار میں نہیں ہونا چاہیے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”یہ تو اعرابیوں جیسی تک بندی کرتا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) ”ایسا بچہ“ یعنی جو زندہ پیدا نہیں ہوا بلکہ پیدا ہونے سے پہلے فوت ہوگیا۔ (2) ”اعرابیوں جیسی“ اعرابی لوگ فصیح وبلیغ زبان بولتے تھے اور اعلیٰ درجے کے شاعر ہوتے تھے، نیز وہ مسجع کلام کیا کرتے تھے۔ (3) ”تک بندی“ یعنی مسجع کلام جس کے جملے ہم آہنگ ہوں۔ ہر جملے کے آخر میں ایک جیسے الفاظ آئیں جیسے اشعار میں ہوتا ہے مگر وزن ایک نہیں ہوتا۔ (4) اس روایت میں ہے کہ اس عورت نے خیمے کی چوب، یعنی لکڑی ماری تھی جبکہ بعض روایات میں ہے کہ اس نے پتھر مارا تھا۔ ان میں تطبیق اس طرح ہے کہ ممکن ہے اس نے دونوں چیزیں ماری ہوں، کسی راوی نے ایک چیز بیان کر دی کسی نے دوسری۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مغیرہ بن شعبہ ؓ کہتے ہیں کہ ایک عورت نے اپنی سوکن کو خیمے کی لکڑی (کھونٹی) سے مارا، جس سے وہ مر گئی، وہ حمل سے تھی، چنانچہ معاملہ نبی اکرم ﷺ کے پاس لایا گیا ؎، تو آپ نے مارنے والی عورت کے عصبہ پر دیت کا اور جنین (پیٹ کے بچہ) کے بدلے ایک «غرہ» (غلام یا ایک لونڈی) دینے کا فیصلہ کیا۔ اس کے خاندان والے بولے: کیا اس کی بھی دیت ادا کی جائے گی، جس نے نہ کھایا، نہ پیا، نہ چیخا اور نہ چلایا۔ ایسا خون تو لغو ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: کیا تم اعراب (دیہاتیوں) کی طرح مسجع کلام کرتے ہو۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Al-Mughirah bin Shu'bah that: a woman struck her co-wife with a tent pole and killed her, and she (the slain woman) was pregnant. She was brought to the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم), and the Messenger of Allah (ﷺ) ruled that the 'Asabah of the killer should pay the Diyah , and a slavae (should be paid) for the fetus. Her 'Asabah said: "Should Diyah be paid for one who neither ate nor drank, or shouted or cried (at the moment of birth)? Such a one should be overlooked." The Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) said: "Rhyming verse like the verse of the Bedouins.