باب: قتل شبہ عمد کا بیان اور اس کا کہ پیٹ کے بچے اور قتل شبہ عمد کی دیت کس کے ذمے ہوگی؟ نیز ابراہیم عن عبید بن نضیہ کے حضرت مغیرہ سے مروی روایت پر راویوں کے اختلافِ الفاظ کا ذکر
)
Sunan-nasai:
The Book of Oaths (qasamah), Retaliation and Blood Money
(Chapter: The Description Of Killing That Resembles Intentional Killing, And Who Is To Pay The Diyah For A Fetus And For A Killing That Resembles Intentional Killing, And Mentioning The Different Wordings Reported In The Narration Of Ibrahim From 'Ubaid Bi)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4827.
حضرت ابراہیم سے منقول ہے کہ ایک عورت نے اپنی سوکن کو پتھر مارا جبکہ وہ حاملہ تھی جس سے وہ مر گئی تو رسول اللہ ﷺ نے اس کے پیٹ کے بچے کی دیت غرہ (غلام یا لونڈی) مقرر فرمائی اور مقتولہ کی دیت قاتلہ کے نسبی رشتہ داروں کے ذمے ڈال دی۔ انھوں نے کہا: ہم ایسے بچے کی دیت بھریں جس نے پیا نہ کھایا، نہ چوں چاں کی؟ ایسے بچے کا تو کوئی معاوضہ نہیں ہونا چاہیے۔ آپ نے فرمایا: ”اعرابیوں کی طرح تک بندی کرتے ہو؟ اصل حکم وہی ہے جو میں کہتا ہوں۔“
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4841
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4842
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4831
تمہید کتاب
٭ تعریف: ’’قسامہ‘‘ اسم مصدر ہے جس کے معنی قسم اٹھانے کے ہیں۔ اصطلاحی طور پر قسامت ان مکرر (پچاس) قسموں کو کہا جاتا ہے جو کسی بے گناہ شخص کے قتل کے اثبات کے لیے دی جائیں۔ اور یہ قسمیں ایک شخص نہیں بلکہ متعدد افراد اٹھائیں گے۔٭ مشروعت: جب کوئی شخص کسی علاقے میں مقتول پایا جائے اور قاتل کا پتہ نہ چلے لیکن کوئی شخص یا قبیلہ متہم ہو تو ایسی صورت میں قسامت مشروع ہے۔ یہ شریعت کا ایک مستقل اصول ہے اور اس کے باقاعدہ احکام ہیں۔ قسم وقضا کے دیگر احکام سے اس کا حکم خاص ہے۔ اس کی مشروعیت کی دلیل اس باب میں مذکور روایات اور اجماع ہے۔٭ شرائط: اہل علم کے اس بارے میں کئی اقوال ہیں، تاہم تین شرائط کا پایا جانا متفقہ طور پر ضروری ہے: (۱) جن کے خلاف قتل کا دعویٰ کیا گیا ہو غالب گمان یہ ہے کہ انھوں نے قتل کیا ہے۔ اور یہ چار طرح سے ممکن ہے۔ کوئی شخص قتل کی گواہی دے جس کی گواہی کا اعتبار نہ کیا جاتا ہو، واضح سبب موجود ہو، دشمنی ہو یا پھر جس علاقے میں مقتول پایا جائے اس علاقے والے قتل کرنے میں معروف ہوں۔ (2) جس کے خلاف دعویٰ دائر کیا گیا ہو وہ مکلف ہو، کسی دیوانے یا بچے کے بارے میں دعوے کا اعتبار نہیں ہوگا۔ (3)جس کے خلاف دعویٰ کیا گیا ہو اس کے قتل کرنے کا امکان بھی ہو، اگر یہ امکان نہ ہو، مثلاً: جن کے خلاف دعویٰ کیا گیا، وہ بہت زیادہ دور ہیں، تو پھر قسامت کے احکام لاگو نہیں ہوں گے۔٭ قسامت کا طریق کار: عمومی قضا میں طریقہ یہ ہوتا ہے کہ مدعی دلیل پیش کرتا ہے۔ اگر وہ دلیل پیش نہ کر سکے تو مدعی ٰ علیہ قسم اٹھا کر اپنے بریٔ الذمہ ہونے کا اظہار کرتا ہے۔ لیکن قسامت میں حاکم وقت مدعی سے پچاس قسموں کا مطالبہ کرتا ہے۔ اگر وہ قسمیں اٹھا لیں تو قصاص یا دیت کے حق دار ٹھہرتے ہیں۔ اور اگر نہ اٹھائیں تو پھر مدعی ٰ علیہ سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ اس کے پچاس قریبی یا متہم قبیلے کے پچاس افراد قسمیں اٹھا کر اپنی براء ت کا اظہار کریں کہ انھوں نے قتل کیا ہے نہ انہیں اس کا علم ہی ہے اگر وہ قسمیں اٹھائیں تو ان سے قصاص یا دیت ساقط ہو جائے گی۔حنابلہ، مالکیہ اور شوافع کا یہی موقف ہے، البتہ احناف کا موقف یہ ہے کہ قسامت میں بھی قسمیں لینے کا آغاز مدعیٰ علیہ فریق سے کیا جائے۔ اس اختلاف کی وجہ روایات کا بظاہر تعارض ہے، تاہم دلائل کے اعتبار سے ائمہ ثلاثہ کا موقف ہی اقرب الی الصواب ہے۔٭ ملاحظہ: مدعی فریق اگر قسمیں اٹھا لے تو پھر مدعی علیہ فریق سے قسموں کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا بلکہ اس سے قصاص یا دیت لی جائے گی۔ دوسری صورت یہ ہے کہ مدعی فریق قسم نہ اٹھائے اور مدعی علیہ فریق قسم اٹھا لے کہ انھوں نے قتل نہیں کیا۔ اس صورت میں مدعی فریق کو کچھ نہیں ملے گا۔ تیسری صورت یہ ہے کہ مدعی علیہ فریق قسمیں کھانے کے لیے تیار ہے لیکن مدعی فریق ان کی قسموں کا (ان کے کافر یا فاسق ہونے کی وجہ سے) اعتبار نہیں کرتا۔ اس صورت میں بھی مدعی علیہ فریق پر قصاص اور دیت نہیں ہوگی، تاہم اس صورت میں بہتر ہے کہ حکومت بیت المال سے مقتول کی دیت ادا کر دے تاکہ مسلمان کا خون رائیگاں نہ جائے۔
حضرت ابراہیم سے منقول ہے کہ ایک عورت نے اپنی سوکن کو پتھر مارا جبکہ وہ حاملہ تھی جس سے وہ مر گئی تو رسول اللہ ﷺ نے اس کے پیٹ کے بچے کی دیت غرہ (غلام یا لونڈی) مقرر فرمائی اور مقتولہ کی دیت قاتلہ کے نسبی رشتہ داروں کے ذمے ڈال دی۔ انھوں نے کہا: ہم ایسے بچے کی دیت بھریں جس نے پیا نہ کھایا، نہ چوں چاں کی؟ ایسے بچے کا تو کوئی معاوضہ نہیں ہونا چاہیے۔ آپ نے فرمایا: ”اعرابیوں کی طرح تک بندی کرتے ہو؟ اصل حکم وہی ہے جو میں کہتا ہوں۔“
حدیث حاشیہ:
یہ روایت مرسل ہے، تاہم شواہد کی بنا پر صحیح ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابراہیم نخعی کہتے ہیں کہ ایک عورت نے اپنی سوکن کو جو حمل سے تھی پتھر مارا، اور وہ مر گئی، تو رسول اللہ ﷺ نے اس کے پیٹ کے بچے کی دیت ایک «غرہ» (یعنی ایک غلام یا ایک لونڈی) ٹھہرائی اور اس کی دیت اس کے کنبے والوں کے ذمے ڈالی، وہ بولے: کیا ہم اس کی دیت دیں جس نے نہ پیا نہ کھایا اور نہ چلایا اس جیسا خون تو لغو ہوتا ہے۔ آپ نے فرمایا: ”یہ دیہاتیوں کی سی سجع ہے، حکم وہی ہے جو میں تم سے کہہ رہا ہوں۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from al-a'mash from Ibrahim who said: "I woman struck her co-wife, who was pregnant, with a rock and killed her Messenger of Allah (ﷺ) ruled that a slave should be given (as Diyah) for the child in her woman, and that her Diyah should be paid by her 'Asabah. They said:' should we be penalized for one who neither after nor drank, or shouted or cried (at the moment of birth)? Such a one should be overlooked.' He said: 'Rhyming vase like the vase of the Bedouins? It is what I say to (sahih)