باب: کون سی چیز محفوظ ہوتی ہے اور کون سی غیر محفوظ؟
)
Sunan-nasai:
The Book of Cutting off the Hand of the Thief
(Chapter: Stealing Something that Is Kept In A Protected Place)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4884.
حضرت صفوان بن امیہ ؓ سے روایت ہے کہ میرے سر کے نیچے سے ایک دھاری دار چادر چرا لی گئی جبکہ وہ نبی اکرم ﷺ کی مسجد میں سوئے ہوئے تھے۔ وہ چور کو پکڑ کر نبی اکرم ﷺ کے پاس لے آئے۔ آپ نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دے دیا۔ صفوان نے کہا: آپ (اتنی چیز میں) اس کا ہاتھ کاٹ دیں گے؟ (میں اسے معاف کرتا ہوں)۔ آپ نے فرمایا: ”تو نے اسے میرے پاس لانے سے پہلے کیوں نہ چھوڑ دیا؟“
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4898
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4899
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4888
تمہید کتاب
چوری انتہائی قبیح عمل ہے جس کی کوئی مذہب بھی اجازت نہیں دیتا بلکہ دنیا کے ہر مذہب میں یہ قابل سزا عمل ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ آج کل کے یورپی قوانین ( جو یورپ کے علاوہ ان ممالک میں رائج ہیں جہاں ان کی حکومت رہی ہے ) میں اس کی سزا قید اور جرمانہ ہے ۔ اور شریعت اسلامیہ میں اس کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے ۔ آج کل کے ’’ روشن خیال ‘‘ حضرات ہاتھ کاٹنے کی سزا کو وحشیانہ اور ظالمانہ کہتے ہیں کہ اس طرح معاشرے میں معذور افراد زیادہ ہوں گے اور وہ معاشرے اور حکومت کے لیے بوجھ بن جائیں گے ، حالانکہ وہ نہیں جانتے کہ یہ ایسی سزا ہے جو چوری کو معاشرے سے تقریبا کالعدم کردے گی ۔صرف چند ہاتھ کاٹنے سے اگر معاشرہ چوری سے پاک ہو جائے تو یہ گھاٹے کا سودا نہیں ۔ ان چند افراد کا بوجھ حکومت یا معاشرے کے لیے اٹھانا ان کروڑوں اربوں کے اخراجات سے بہت ہلکا ہے جو پولیس اور جیلوں پر خرچ کرنے پڑتے ہیں جب کہ جیلوں میں چھوٹے چور بڑے چور بنتے ہیں ۔ وہاں جرائم پیشہ افراد اکھٹے ہو جاتے ہیں جس سے جرائم کے منصوبے بنتے ہیں ۔ یہ سمجھنا کہ اسلامی سزا کے نفاذ سے ’’ ہتھ کٹے ‘‘ افراد کی کثرت ہوتی ہے ، جہالت ہے ۔ چند ہاتھ کٹنے سے چوری ختم ہو جائے گی ۔ پولیس اور عدالتوں کی توسیع کی ضرورت نہیں رہے گی ۔ شہر میں ایک آدھ ’’ ہتھ کٹا ‘‘ فرد سارے شہر کے لیے عبرت بنا رہے گا ۔ اس سے کہیں زیادہ افراد کے ہاتھ حادثات میں کٹ جاتے ہیں لہذا یہ صرف پروپیگنڈا ہے کہ اس سزا سے ’’ ہتھ کٹوں ‘‘ کا سیلاب آجائے گا ۔سعودی عرب جہاں اسلامی سزائیں سختی سے نافذ ہیں ، اس حقیقت کی زندہ مثال ہے ۔ وہاں کوئی فرد ہتھ کٹا نظر نہیں آتا مگر چوری کا تصور تقریبا ختم ہو چکا ہے ۔ کروڑوں کی مالیت کا سامان بغیر کسی محافظ کے پڑا رہتا ہے اور لوگ دکانیں کھلی چھوڑ کر نماز پڑھنے چلے جاتے ہیں ۔ زیورات سے لدی پھندی عورتیں صحراوں میں ہزاروں میلوں کا سفر کرتی ہیں مگر کسی کو نظر بد کی بھی جرات نہیں ہوتی حالانکہ اسلامی سزا کے نفاذ سے قبل دن دہاڑے قافلے لوٹ لیے جاتے تھے ۔ اور لوگ حاجیوں کی موجودگی میں ان کا سامان اٹھا کر بھاگ جایا کرتے تھے جیسا کہ آج کل امریکہ وغیرہ میں حال ہے ، باوجود اس کے کہ وہاں جیلیں بھری پڑی ہیں مگر چوری ، ڈاکے روز روز بڑھ رہے ہیں۔اسلام نے چوری کی یہ سزا اس لیے رکھی ہے کہ چوری بڑھتے بڑھتے ڈاکا ڈالنے کی عادت ڈالتی ہے ۔ڈاکے میں بے دریغ قتل کیے جاتے ہیں اور جبرا عصمتیں لوٹی جاتی ہیں ۔ گویا چور آہستہ آہستہ ڈاکو ، قاتل اور زنا بالجر کا مرتکب بن جاتا ہے ، لہذا ابتدا ہی میں اس کا ایک ہاتھ کاٹ دیا جائے تاکہ وہ خود بھی پہلے قدم پر ہی رک جائے بلکہ واپس پلٹ جائے اور معاشرہ بھی ڈاکوؤں ، بے گنا ہ قتل اور زنا بالجر جیسے خوف ناک اور قبیح جرائم سے محفوظ رہ سکے ۔ بتائیے ! اس سزا سے چور اور معاشرے کو فائدہ حاصل ہوا یا نقصان ؟ جب کہ قید اور جرمانے کی سزا ان جرائم میں مزید اضافے کا ذریعہ بنتی ہے ۔ پہلی چوری کا جرمانہ اس سے بڑی چوری کے ذریعے سے ادا کیا جاتا ہے اور جیل جرائم کی تربیت گاہ ثابت ہوتی ہے ۔جرائم تبھی ختم ہوں گے جب ان پر کڑی اور بے لاگ اسلامی سزائیں نافذ کی جائیں گی کیونکہ وہ فطرت کے عین مطابق ہیں ۔
حضرت صفوان بن امیہ ؓ سے روایت ہے کہ میرے سر کے نیچے سے ایک دھاری دار چادر چرا لی گئی جبکہ وہ نبی اکرم ﷺ کی مسجد میں سوئے ہوئے تھے۔ وہ چور کو پکڑ کر نبی اکرم ﷺ کے پاس لے آئے۔ آپ نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دے دیا۔ صفوان نے کہا: آپ (اتنی چیز میں) اس کا ہاتھ کاٹ دیں گے؟ (میں اسے معاف کرتا ہوں)۔ آپ نے فرمایا: ”تو نے اسے میرے پاس لانے سے پہلے کیوں نہ چھوڑ دیا؟“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
صفوان بن امیہ ؓ کہتے ہیں کہ ایک چادر ان کے سر کے نیچے سے چوری ہو گئی اور وہ مسجد نبوی میں سو رہے تھے، انہوں نے چور پکڑ لیا اور اسے لے کر نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے، آپ نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا تو صفوان ؓ نے کہا: کیا آپ اس کا ہاتھ کاٹیں گے؟ آپ نے فرمایا: ”تو پھر اسے میرے پاس لانے سے پہلے ہی کیوں نہ چھوڑ دیا۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Safwan bin Umayyah that: a Khamisah was stolen from beneath his head while he slept in the Masjid of the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم). He caught there thief and brought him to the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم), who ordered that his hand be cut off. Safwan said: "Are you going to cut off his hand?" He said "Why didn't you let him go before you brought him to me?" (Daif)