Sunan-nasai:
Mention The Fitrah (The Natural Inclination Of Man)
(Chapter: The Intention For Wudu)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
75.
حضرت عمر بن خطاب ؓ نے کہا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ’’اعمال کا اعتبار نیت سے ہے۔ ہر آدمی کو اس کی نیت کے مطابق اجر ملے گا، چنانچہ جس شخص کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی خاطر ہے تو اس آدمی کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی طرف سمجھی جائے گی اور جس شخص کی ہجرت دنیا حاصل کرنے یا کسی عورت سے نکاح کرنے کی خاطر ہے تو اس کی ہجرت اس چیز کی طرف سمجھی جائے گی جس کی خاطر اس نے ہجرت کی۔‘‘
تشریح:
(۱) یہ حدیث دین اسلام کی چند اساسی احادیث میں سے ہے جن پر دین کی بنیاد ہے۔ اعمال سے نیک اعمال ہی مراد ہیں، یعنی ان کی صحت و اعتبار کے لیے نیت کا خالص ہونا شرط ہے، بخلاف برے اعمال کے کہ وہ اچھی نیت سے اچھے نہیں بن سکتے جبکہ نیک اعمال خراب نیت سے برے بن سکتے ہیں۔ (2) اس حدیث کی رو سے نیت کے بغیر کوئی عمل معتبر نہیں جن میں وضو بھی داخل ہے اور یہی جمہور اہل علم و فقہاء اور محدثین کا مسلک ہے مگر احناف کے نزدیک وضونیت کے بغیر بھی معتبر ہے کیونکہ یہ اصل عبادت نہیں، بلکہ اصل عبادت (نماز وغیرہ) کے لیے وسیلہ ہے، حالانکہ صحیح احادیث کی رو سے ضو گناہوں کی معافی اور درجات کے حصول کا بھی سبب ہے۔ دیکھیے: (صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، حدیث: ۸۳۲) اور یہ بغیر نیت کے ممکن نہیں۔
حضرت عمر بن خطاب ؓ نے کہا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ’’اعمال کا اعتبار نیت سے ہے۔ ہر آدمی کو اس کی نیت کے مطابق اجر ملے گا، چنانچہ جس شخص کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی خاطر ہے تو اس آدمی کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی طرف سمجھی جائے گی اور جس شخص کی ہجرت دنیا حاصل کرنے یا کسی عورت سے نکاح کرنے کی خاطر ہے تو اس کی ہجرت اس چیز کی طرف سمجھی جائے گی جس کی خاطر اس نے ہجرت کی۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(۱) یہ حدیث دین اسلام کی چند اساسی احادیث میں سے ہے جن پر دین کی بنیاد ہے۔ اعمال سے نیک اعمال ہی مراد ہیں، یعنی ان کی صحت و اعتبار کے لیے نیت کا خالص ہونا شرط ہے، بخلاف برے اعمال کے کہ وہ اچھی نیت سے اچھے نہیں بن سکتے جبکہ نیک اعمال خراب نیت سے برے بن سکتے ہیں۔ (2) اس حدیث کی رو سے نیت کے بغیر کوئی عمل معتبر نہیں جن میں وضو بھی داخل ہے اور یہی جمہور اہل علم و فقہاء اور محدثین کا مسلک ہے مگر احناف کے نزدیک وضونیت کے بغیر بھی معتبر ہے کیونکہ یہ اصل عبادت نہیں، بلکہ اصل عبادت (نماز وغیرہ) کے لیے وسیلہ ہے، حالانکہ صحیح احادیث کی رو سے ضو گناہوں کی معافی اور درجات کے حصول کا بھی سبب ہے۔ دیکھیے: (صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، حدیث: ۸۳۲) اور یہ بغیر نیت کے ممکن نہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عمر بن خطاب ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے، آدمی کے لیے وہی چیز ہے جس کی اس نے نیت کی، تو جس نے اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کی تو اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہو گی، اور جس نے دنیا کے حصول یا کسی عورت سے شادی کرنے کی غرض سے ہجرت کی تو اس کی ہجرت اسی چیز کے واسطے ہو گی جس کے لیے اس نے ہجرت کی۔“ ۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : اس حدیث کی بنیاد پرعلماء کا اتفاق ہے کہ اعمال میں نیت ضروری ہے، اور نیت کے مطابق ہی اجر ملے گا، اور نیت کا محل دل ہے یعنی دل میں نیت کرنی ضروری ہے، زبان سے اس کا اظہار ضروری نہیں، بلکہ یہ بدعت ہے سوائے ان صورتوں کے جن میں زبان سے نیت کرنا دلائل و نصوص سے ثابت ہے، جیسے حج و عمرہ وغیرہ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that ‘Umar bin Al-Khattab (RA) said: “The Messenger of Allah (ﷺ) said: ‘Actions are only done with intentions, and every man shall have what he intended. Thus he whose emigration was for Allah and His Messenger, his emigration was for Allah and His Messenger, and he whose emigration was to achieve some worldly benefit or to take some woman in marriage, his emigration was for that which he intended.” (Sahih)