Sunan-nasai:
The Book of the Qiblah
(Chapter: If there is a Sutra between a praying person and the Imam)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
762.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک چٹائی تھی جسے آپ دن کو بچھا لیتے تھے اور رات کو اس سے حجرہ سا بنا لیتے تھے اور اس میں نماز پڑھتے۔ لوگوں کو آپ کی نماز کا پتہ چل گیا تو وہ آپ کی نماز کے ساتھ نماز پڑھنے لگے جب کہ ان کے اور آپ کے درمیان وہ چٹائی حائل تھی۔ آپ نے فرمایا: ”اتنے عمل کے شائق بنو جس کی آسانی کے ساتھ طاقت رکھو کیونکہ اللہ تعالیٰ (ثواب دینے سے) نہیں اکتائے گا حتیٰ کہ تم ہی اکتا جاؤ گے (اوروہ نیک کام چھوڑ دو گے۔) اللہ تعالیٰ کا سب سے پسندیدہ کام وہ ہے جس پر ہمیشگی ہو اگرچہ وہ تھوڑا ہی ہو۔“ پھر آپ نے اس جگہ نماز پڑھنی چھوڑ دی۔ دوبارہ نہیں پڑھی (پھر گھر میں پڑھنے لگے) حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی روح قبض کر لی۔ اور آپ جب کوئی کام شرووع کرتے تو اس پر ہمیشگی کرتے۔ (یہ نہیں کہ چار دن کیا، پھر چھوڑ دیا۔)
تشریح:
(1) چٹائی کو کھڑا کرکے حجرہ سا بنانا لوگوں کی مداخلت روکنے اور خلوت مہیا کرنے کے لیے تھا کیونکہ خلوت خشوع و خضوع میں معاون ہے۔ (2) کوئی نیک کام شروع کرکے چھوڑ دینا زیادہ برا ہے بجائے اس کے کہ شروع ہی نہ کیا جائے کیونکہ چھوڑنے میں اعراض ہے، البتہ اگر کبھی کبھار نیند، سستی یا مصروفیت کی بنا پر وہ رہ جائے تو کوئی حرج نہیں بلکہ اس کا ثواب لکھا جاتاہے، بشرطیکہ مستقل نہ چھوڑے۔
الحکم التفصیلی:
قلت: إسناده حسن صحيح. وأخرجه الشيخان وأبو عوانة بأسانيد أخرى
عنها نحوه) .
إسناده: حدثنا قتيبة بن سعيد: ثنا الليث عن ابن عجلان عن سعيد المَقْبُرِي
عن أبي سلمة عن عائشة.
قلت: وهذا إسناد حسن، (رجاله كلهم ثقات رجال الشيخين؛ غير محمد بن
عجلان، فأخرج له مسلم في الشواهد، وقد توبع كما يأتي؛ فالحديث صحيح.
والحديث أخرجه النسائي (1/124) ... بإسناد المصنف هذا؛ وفيه بيان
سبب الحديث؛ فكأن المصنف اختصره.
وكذلك أخرجه أحمد (6/40) : ثنا لى صيان عن ابن عجلان... به.
ثم أخرجه (6/61 و 176 و 180- 181 و 241 و 267) من طرق أخرى عن
أبي سلمة... به مطولاً ومختصرآ. وإسناد بعضها صحيح على شرطهما.
وقد أخرجه البخاري (4/223) مختصرا ومسلم (2/188- 189) ، وأبو عوانة
(2/298) ، وابن ماجه (4237) - مطولاً--
وله عند البخاري (1/18- 19 و 4/299- 291) طريق أخرى عنها.
وللجملة الوسطى منه طريق أخرى: عند مسلم (2/189) .
وللجملة الأولى منه شاهد من حديث أبي هريرة مرفوعاً... به.
أخرجه البخاري (2/490) ، ومسلم (3/133- 134) ، وابن ماجه (4240) ،
وأحمد (2/231 و 257 و 316 و 350 و 418 و 495-496) .
وعنده الجملة الثالثة في رواية، وهي رواية ابن ماجه؛ وسندها جيد في
الشواهد.
(تنبيه) : أورد السيوطي الحديث في "الجامع " بلفظ:
" ليتكلَّفْ أحدُكم من العمل ما يُطيق ؛ فإن الله تعالى لا يَمَل حتى تَمَلّوا،
وقاربوا وسددوا "! وقال:
" رواه أبو نعيم في "الحلية" عن عائشة "!
وأقول: لم أره في فهرس "الحلية "، ولا وجدت هذه الزيادة: " وقاربوا وسددوا "
في شيء من طرق الحديث المذكورة! وإنما ير في حديث آخر لعائشة بلفظ:
" سددوا وقاربوا، واعلموا أنه لن يُدْخِلَ أحدَكُم عملُهُ الجنةَ، وإن أحبَّ
الأعمال إلى الله أدْوَمُها وإن قلَّ ".
أخرجه البخاري في "الرقاق " ومسلم قًبَيْلَ " الجنة ".
وقد ثبت من حديث ابن عمرو أيضأ، وهو مخرج في "الأحاديث الصحيحة"
(115) (*) .
(*) هذا حديث ثوبان، أما حديث ابن عمرو فقد خرجه رحمه الله في "الإرواء" تحت
الرقم (412) . (الناشر) .
وروى ابن ماجه (4241) عن عيسى بن جارية عن جابر بن عبد الله قال:
مَر رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ على رجل يصلَي على صخرة، فأتى ناحية مكة، فمكث
مَلِياً، ثم انصرف فوجد الرجل يصلي على حاله، فقام فجمع يديه، ثم قال:
" يا أيها الناس! عليكم القصدَ (ثلاثاً) ؛ فإن الله لا يَمَل حتى تَمَلوا ".
قلت: وهذا إسناد حسن في الشواهد.
وأخرجه أبو يعلى أيضا في "مسنده " (ق 98/2) من هذا الوجه.
ويأتي الحديث مختصراً من طريق أخرى عن علقمة عن عائشة... به (رقم
1240) .
ورواه الترمذي (2/139) من طريق أبي هاشم الرفاعي: حدثنا ابن فُضَيْل عن
الأعمش عن أبي صالح قال:
سُئِلَتْ عائشة وأم سلمة: أيُّ العمل كان أحبَّ إلى رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قالتا:
ما دِيمَ عليه وإن قل. وقال:
"حسن غريب "!
وأبو هاشم هذا ضعيف، وذِكْرُ أم سلمة فيه غريب.
لكن أخرجه أحمد (6/319) من طريق أخرى عن أبي سلمة عن أم
سلمة... به نحوه.
وسنده صحيح، وصححه ابن حبان (637) .
وللشطر الأول من الحديث شاهد من حديث عمران بن حصين: عند الطبراني
في "المعجم الكبير" (18/228/568) بسند جيد
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک چٹائی تھی جسے آپ دن کو بچھا لیتے تھے اور رات کو اس سے حجرہ سا بنا لیتے تھے اور اس میں نماز پڑھتے۔ لوگوں کو آپ کی نماز کا پتہ چل گیا تو وہ آپ کی نماز کے ساتھ نماز پڑھنے لگے جب کہ ان کے اور آپ کے درمیان وہ چٹائی حائل تھی۔ آپ نے فرمایا: ”اتنے عمل کے شائق بنو جس کی آسانی کے ساتھ طاقت رکھو کیونکہ اللہ تعالیٰ (ثواب دینے سے) نہیں اکتائے گا حتیٰ کہ تم ہی اکتا جاؤ گے (اوروہ نیک کام چھوڑ دو گے۔) اللہ تعالیٰ کا سب سے پسندیدہ کام وہ ہے جس پر ہمیشگی ہو اگرچہ وہ تھوڑا ہی ہو۔“ پھر آپ نے اس جگہ نماز پڑھنی چھوڑ دی۔ دوبارہ نہیں پڑھی (پھر گھر میں پڑھنے لگے) حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی روح قبض کر لی۔ اور آپ جب کوئی کام شرووع کرتے تو اس پر ہمیشگی کرتے۔ (یہ نہیں کہ چار دن کیا، پھر چھوڑ دیا۔)
حدیث حاشیہ:
(1) چٹائی کو کھڑا کرکے حجرہ سا بنانا لوگوں کی مداخلت روکنے اور خلوت مہیا کرنے کے لیے تھا کیونکہ خلوت خشوع و خضوع میں معاون ہے۔ (2) کوئی نیک کام شروع کرکے چھوڑ دینا زیادہ برا ہے بجائے اس کے کہ شروع ہی نہ کیا جائے کیونکہ چھوڑنے میں اعراض ہے، البتہ اگر کبھی کبھار نیند، سستی یا مصروفیت کی بنا پر وہ رہ جائے تو کوئی حرج نہیں بلکہ اس کا ثواب لکھا جاتاہے، بشرطیکہ مستقل نہ چھوڑے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ام المؤمنین عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک چٹائی تھی جسے آپ دن میں بچھایا کرتے تھے، اور رات میں اس کو حجرہ نما بنا لیتے اور اس میں نماز پڑھتے، لوگوں کو اس کا علم ہوا تو آپ کے ساتھ وہ بھی نماز پڑھنے لگے، آپ کے اور ان کے درمیان وہی چٹائی حائل ہوتی، آپ ﷺ نے فرمایا: ”(اتنا ہی) عمل کرو جتنا کہ تم میں طاقت ہو، کیونکہ اللہ تعالیٰ ثواب دینے سے نہیں تھکے گا البتہ تم (عمل سے) تھک جاؤ گے، اللہ تعالیٰ کے نزدیک محبوب ترین عمل وہ ہے جس پر مداومت ہو گرچہ وہ کم ہو“ ، پھر آپ ﷺ نے وہ جگہ چھوڑ دی، اور وہاں دوبارہ نماز نہیں پڑھی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو وفات دے دی، آپ جب کوئی کام کرتے تو اسے جاری رکھتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that 'Aishah (RA) said: "The Messenger of Allah (ﷺ) had a mat which he would spread in the day and make into a small booth at night to pray in it. The people found out about that and they prayed when he prayed, with the mat in between him and them. He said: 'Do as much of good deeds as you can, for Allah does not get tired (of giving reward) until you get tired. And the most beloved of deeds to Allah are those that are continuous, even if they are few'. Then he stopped that prayer and did not return to it until Allah took him (in death), and if he started to do something he would persist in it".