تشریح:
وضاخت:
۱؎: بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی اکرمﷺ نے اس کی صلاۃِ جنازہ پڑھی ہے، تطبیق کی صورت یہ ہے کہ نفی کی روایت کو اس پر محمول کیا جائے گا کہ رجم والے دن آپ نے اس کی صلاۃِ جنازہ نہیں پڑھی، جب کہ اثبات والی روایت کا مفہوم یہ ہے کہ دوسرے دن آپ نے اس کی صلاۃِ جنازہ پڑھی، اس کی تائید صحیح مسلم کی اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جو عمران بن حصین سے قبیلہ جہینہ کی اس عورت کے متعلق آئی ہے جس سے زنا کا عمل ہوا پھراسے رجم کیا گیا، اور نبی اکرمﷺ نے اس کی صلاۃِ جنازہ پڑھی تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’أَتُصَلِّي عَلَيْهَا وَقَدْ زَنَتْ؟‘‘ کیا اس زانیہ عورت کی صلاۃِ جنازہ آپ پڑھیں گے؟ آپﷺ نے فرمایا: «لَقَدْ تَابَتْ تَوْبَة لَوْ قُسِمَتْ بَيْنَ سَبْعِيْنَ لَوَسعَتْهُم» یعنی اس نے جو توبہ کی ہے اسے اگر ستر افراد کے درمیان بانٹ دیا جائے تووہ ان سب کے لیے کافی ہوگی، عمران بن حصین کی یہ حدیث ترمذی میں بھی ہے، دیکھئے: كتاب الحدود، باب تربص الرجم بالحبلى حتى تضع، حدیث رقم ۱۴۳۵۔
۲؎: اس سلسلہ میں صحیح قول یہ ہے کہ چار مرتبہ اقرار کی نوبت اس وقت پیش آتی ہے جب اقرار کرنے والے کی بابت عقلی وذہنی اعتبار سے کسی قسم کا اشتباہ ہوبصورت دیگر حد جاری کرنے کے لئے صرف ایک اقرار کافی ہے، پوری حدیث باب الرجم علی الثیب کے تحت آگے آرہی ہے۔