تشریح:
وضاحت:
۱؎: اس ضعیف حدیث، اور قربانی کرتے وقت نبی اکرمﷺ کی دعا: ’’اللهم تقبل من محمد وآل محمد ومن أمة محمد‘‘ سے استدلال کرتے ہوئے بعض علماء کہتے ہیں کہ میت کی جانب سے قربانی کی جا سکتی ہے، پھراختلاف اس میں ہے کہ میت کی جانب سے قربانی افضل ہے یا صدقہ؟ حنابلہ اور اکثر فقہا کے نزدیک قربانی افضل ہے، جب کہ بعض فقہاء کا کہنا ہے کہ قیمت صدقہ کرنا زیادہ افضل ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ قربانی دراصل دیگر عبادات (صوم وصلاۃ) کی طرح زندوں کی عبادت ہے، قربانی کے استثناء کی کوئی دلیل پختہ نہیں ہے، علی رضی اللہ عنہ کی حدیث سخت ضعیف ہے، اور نبی اکرم ﷺ کی قربانی کے وقت کی دعاء سے استدلال زبردستی کا استدلال ہے جیسے بدعتیوں کا قبرستان کی دعاء سے غیر اللہ کو پکار نے پر استدلال کرنا، جب کہ اس روایت کے بعض الفاظ یوں بھی ہیں ’’عمن لم يضح أمتي‘‘ (یعنی میری امت میں سے جو قربانی نہیں کرسکا ہے اس کی طرف سے قبول فرما) اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ ’’میری امت میں سے جو زندہ شخص قربانی کی استطاعت نہ رکھتا ہو اور اس کی وجہ سے قربانی نہ کرسکا ہو اس کی طرف سے یہ قربانی قبول فرما‘‘، نیز امت میں میت کی طرف سے قربانی کا تعامل بھی نہیں رہا ہے۔ (واللہ اعلم بالصواب)۔
نوٹ: (سند میں ’’شریک‘‘ حافظے کے کمزورہیں ، اور ’’ابوالحسناء‘‘ مجہول ، نیز ’’حنش‘‘ کے بارے میں بھی سخت اختلاف ہے)