قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: فعلی

جامع الترمذي: أَبْوَابُ السِّيَرِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ (بَابٌ فِي التَّحْرِيقِ وَالتَّخْرِيبِ​)

حکم : صحیح 

1552. حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَرَّقَ نَخْلَ بَنِي النَّضِيرِ وَقَطَعَ وَهِيَ الْبُوَيْرَةُ فَأَنْزَلَ اللَّهُ مَا قَطَعْتُمْ مِنْ لِينَةٍ أَوْ تَرَكْتُمُوهَا قَائِمَةً عَلَى أُصُولِهَا فَبِإِذْنِ اللَّهِ وَلِيُخْزِيَ الْفَاسِقِينَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ ذَهَبَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ إِلَى هَذَا وَلَمْ يَرَوْا بَأْسًا بِقَطْعِ الْأَشْجَارِ وَتَخْرِيبِ الْحُصُونِ وَكَرِهَ بَعْضُهُمْ ذَلِكَ وَهُوَ قَوْلُ الْأَوْزَاعِيِّ قَالَ الْأَوْزَاعِيُّ وَنَهَى أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ أَنْ يَقْطَعَ شَجَرًا مُثْمِرًا أَوْ يُخَرِّبَ عَامِرًا وَعَمِلَ بِذَلِكَ الْمُسْلِمُونَ بَعْدَهُ و قَالَ الشَّافِعِيُّ لَا بَأْسَ بِالتَّحْرِيقِ فِي أَرْضِ الْعَدُوِّ وَقَطْعِ الْأَشْجَارِ وَالثِّمَارِ و قَالَ أَحْمَدُ وَقَدْ تَكُونُ فِي مَوَاضِعَ لَا يَجِدُونَ مِنْهُ بُدًّا فَأَمَّا بِالْعَبَثِ فَلَا تُحَرَّقْ و قَالَ إِسْحَقُ التَّحْرِيقُ سُنَّةٌ إِذَا كَانَ أَنْكَى فِيهِمْ

مترجم:

1552.

عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بنونضیرکے کھجوروں کے درخت جلوا اور کٹوا دیئے ۱؎، یہ مقام بویرہ کا واقعہ ہے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی ﴿مَا قَطَعْتُمْ مِنْ لِينَةٍ أَوْ تَرَكْتُمُوهَا قَائِمَةً عَلَى أُصُولِهَا فَبِإِذْنِ اللَّهِ وَلِيُخْزِيَ الْفَاسِقِينَ ﴾ (الحشر: ۵) ’’(مسلمانو!) (یہود بنی نضیرکے) کھجوروں کے درخت جوکاٹ ڈالے ہیں یا ان کو ہاتھ بھی نہ لگایا اوراپنے تنوں پر ہی ان کو کھڑا چھوڑدیا تو یہ سب اللہ کے حکم سے تھا اور اللہ عزوجل کو منظورتھاکہ وہ نافرمانوں کو ذلیل کرے۔‘‘
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
۲۔ اس باب میں ابن عباس ؓ سے بھی روایت ہے۔
۳۔ بعض اہل علم کایہی مسلک ہے، وہ درخت کاٹنے اورقلعے ویران کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے ہیں۔
۴۔ بعض اہل علم اس کو مکروہ سمجھتے ہیں، اوزاعی کا یہی قول ہے۔
۵۔ اوزاعی کہتے ہیں: ابوبکر صدیق ؓ نے یزید کو پھل دار درخت کاٹنے اورمکان ویران کرنے سے منع کیا، ان کے بعد مسلمانوں نے اسی پرعمل کیا،
۶۔ شافعی کہتے ہیں: دشمن کے ملک میں آگ لگانے، درخت اورپھل کاٹنے میں کوئی حرج نہیں ہے۲؎۔
۷۔ احمدکہتے ہیں: اسلامی لشکرکبھی کبھی ایسی جگہ ہوتا ہے جہاں اس کے سواکوئی چارہ نہیں ہوتا، لیکن بلاضرورت آگ نہ لگائی جائے۔
۸۔ اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں: آگ لگاناسنت ہے، جب یہ کافروں کی ہار ورسوائی کا باعث ہو۔