تشریح:
وضاحت:
۱؎: فخض فيه ورفع کے معنی ومطلب کے بارے میں دوقول ہیں: ایک (خفض) ،(حقر)کے معنی میں یعنی اللہ تعالیٰ کے یہاں وہ ذلیل وحقیر ہے، حتی کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو دنیا میں کانا پیداکیا، نبی اکرمﷺ کا ارشاد ہے کہ دجال اللہ رب العزت کے یہاں اس سے زیادہ ذلیل ہے یعنی وہ اس ایک آدمی کے علاوہ کسی اور کو قتل کرنے پر قدرت نہیں رکھے گا، بلکہ ایسا کرنے سے عاجز ہوگا، اس کا معاملہ کمزور پڑ جائے گا، اور اس کے بعد اس کا اور اس کے اتباع ومویدین کا قتل ہو جائے گا، اور (رفع) کے معنی اس کے شراور فتنے کی وسعت ہے اور یہ کہ اس کے پاس جوخرق عادت چیزیں ہوں گی وہ لوگو ں کے لیے ایک بڑا فتنہ ہوں گی، یہی وجہ ہے کہ ہر نبی نے اپنی قوم کو اس کے فتنے سے ڈرایا، دوسرا معنی اس جملے کا یہ ہے کہ نبی اکرمﷺ نے اس کا تذکرہ اتنا زیادہ کیا کہ لمبی گفتگو کے بعد آپﷺ کی آواز کم ہوگئی تاکہ دورانِ گفتگو آپﷺ آرام فرما لیں پھرسب کو اس فتنے سے آگاہ کرنے کے لیے آپ کی آواز بلند ہو گئی۔
۲؎: یعنی میری زندگی کے بعد فتنہ دجال کے وقت میری امت کا نگراں اللہ رب العالمین ہے۔
۳؎: لُد: بیت المقدس کے قریب ایک شہرہے، النہایة فی غریب الحدیث میں ہے کہ لُد ملک شام میں ایک جگہ ہے، یہ بھی کہا گیا ہے کہ فلسطین میں ایک جگہ ہے، (یہ آج کل اسرائیل کا ایک فوجی اڈہ ہے)
۴ ؎: اُن کے اسلحہ کی مقدار اس قدر زیادہ ہو گی، یا مسلمانوں کی تعداد اُس وقت اس قدرکم ہو گی۔
۵؎: اس حدیث میں علامات قیامت، خروج دجال، نزول عیسیٰ بن مریم، یاجوج وماجوج کا ظہور اور ان کے مابین ہونے والے اہم واقعات کا تذکرہ ہے، دجال کی فتنہ انگیزیوں، یاجوج وماجوج کے ذریعہ پیدا ہونے والے مصائب اور عیسیٰ علیہ السلام کے ہاتھوں اور ان کی دعاؤں سے ان کے خاتمے کا بیان ہے۔
الحکم التفصیلی:
قال الألباني في "السلسلة الصحيحة" 1 / 789 :
أخرجه البزار في " مسنده " ( ص 238 - مصورة المكتب ) : حدثنا محمد
ابن عبد الرحيم حدثنا عفان ، و ابن حبان في " صحيحه " ( 1889 - موارد ) :
أخبرنا أحمد بن علي بن المثنى حدثنا إبراهيم بن حجاج السامي قالا حدثنا
عبد الواحد ابن زياد : حدثنا عثمان بن حكيم حدثنا أبو أمامة بن سهل بن حنيف
عن عبد الله ابن عمرو قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : فذكره .
و قال البزار : " لا نعلمه من وجه يصح إلا من هذا الوجه " .
قلت : و هذا سند صحيح رجاله كلهم ثقات على شرط مسلم غير أحمد بن علي و هو
أبو يعلى الموصلي الحافظ صاحب " المسند " و هو ثقة حافظ .
و للحديث طريق أخرى ، أخرجه الحاكم ( 4 / 457 ) من طريق قتادة عن أبي مجلز عن
قيس بن عباد عن عبد الله بن عمرو قال : فذكره نحوه مطولا موقوفا .
و هو في حكم المرفوع و قال :
" صحيح الإسناد على شرطهما ، موقوف " . و وافقه الذهبي .
و له عنده ( 4 / 455 - 456 ) طريق أخرى عنه موقوفا أيضا .
و له شاهد من حديث أبي هريرة مرفوعا :
" و الذي نفسي بيده لا تفنى هذه الأمة حتى يقوم الرجل إلى المرأة فيفترشها في
الطريق ، فيكون خيارهم يومئذ من يقول لو واريتها وراء هذا الحائط " .
أخرجه أبو يعلى في " مسنده " ( ق 291 / 2 ) عن خلف بن خليفة حدثنا يزيد ابن
كيسان عن أبي حازم عنه .
قلت : و رجال إسناده ثقات رجال مسلم ، إلا أن خلفا هذا كان اختلط في الآخر ،
و ادعى أنه رأى عمرو بن حريث الصحابي فأنكر عليه ذلك ابن عيينة و أحمد كما في
" التقريب " .
و قال الهيثمي في " مجمع الزوائد " ( 8 / 331 ) :
" رواه أبو يعلى و رجاله رجال الصحيح " !
و له طريق أخرى عن أبي هريرة ، بإسناده واه و زيادة في آخره :
" فذاك فيهم مثل أبي بكر و عمر فيكم " .
و من أجلها أوردته في " الضعيفة " ( 1254 ) .
و له شاهد آخر من حديث النواس بن سمعان في حديثه الطويل في الدجال و يأجوج
و مأجوج ، و في آخره :
" فبينما هم كذلك إذ بعث الله ريحا طيبة فتأخذهم تحت آباطهم فتقبض روح كل مؤمن
و كل مسلم ، و يبقى شرار الناس ، يتهارجون فيها تهارج الحمر ، فعليهم تقوم
الساعة " .
أخرجه أحمد ( 4 / 181 - 182 ) و مسلم ( 8 / 197 - 198 ) و الحاكم ( 4 / 492 -
494 ) و قال : " صحيح على شرط الشيخين ، و لم يخرجاه " . و وافقه الذهبي !
فوهما في استدراكه على مسلم .
( يتهارجون ) أي يجامع الرجال النساء بحضرة الناس كما يفعل الحمير و لا يكترثون
كذلك . و ( الهرج ) بإسكان الراء الجماع ، يقال : هرج زوجته أي جامعها . نووي .
قلت : و بمعناه تماما ( يتسافدون ) .
و له شاهد ثالث من حديث أبي ذر نحو حديث أبي هريرة .
أخرجه الحاكم ( 3 / 343 ) من طريق سيف بن مسكين الأسواري حدثنا المبارك
ابن فضالة عن المنتصر بن عمارة بن أبي ذر الغفاري عن أبيه عن جده عن رسول الله
صلى الله عليه وسلم به . و قال : " تفرد به سيف بن مسكين " .
قال الذهبي : " هو واه ، و منتصر و أبوه مجهولان " .