تشریح:
۱؎: یعنی: پہلے تو قتادہ نے دوسرے سکتے کے بارے میں یہ کہا کہ وہ پوری قراء ت سے فراغت کے بعد ہے، اور بعد میں کہا کہ وہ ﴿وَلَا الضَّالِّينَ﴾ کے بعد اور سورہ کی قراء ت سے پہلے ہے، یہ قتادہ کا اضطراب ہے، اس کی وجہ سے بھی یہ روایت ضعیف مانی جاتی ہے، حقیقت یہ ہے کہ دوسرا سکتہ پوری قراء ت سے فراغت کے بعد اور رکوع سے پہلے اس روایت کی تائید کئی طرق سے ہوتی ہے، (دیکھئے ضعیف ابی داؤدرقم ۱۳۵-۱۳۸) امام شوکانی نے: ’’حصل من مجموع الروايات ثلاث سكتات‘‘ کہہ کر تین سکتے بیان کیے ہیں اور تیسرے کے متعلق کہ جو سورۃ الفاتحۃ، اس کے بعد والی قرأت اور رکوع سے پہلے ہو گا- ’’وهي أخف من الأولى والثانية‘‘ یہ تیسرا سکتہ افتتاح صلاۃ کے فوراً بعد سورۃ الفاتحۃ سے قبل والے پہلے سکتہ اور ﴿وَلَا الضَّالِّينَ﴾کے بعد اگلی قرأت سے قبل والے دوسرے سکتہ سے بہت ہلکا ہو گا، یعنی امام کی سانس درست ہونے کے لیے بس۔ (دیکھئے: تحفۃ الأحوذی ۱/۲۱۳ طبع المکتبۃ الفاروقیۃ، ملتان، پاکستان)۔
نوٹ: (حسن بصری کے سمرہ سے حدیث عقیقہ کے سوا سماع میں اختلاف ہے، نیز ’’حسن‘‘ مدلس ہیں، اور یہاں پر نہ تو سماع کی صراحت ہے، نہ ہی تحدیث کی، اس پر مستزاد یہ کہ قتادہ بھی مدلس ہیں، اور’’عنعنہ‘‘ سے روایت ہے)
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده ضعيف؛ فإن الرجل الذي لم يُسم: هو عاصم العنزِي؛ سُمي في الرواية الأولى) . إسناده: حدثنا مسدد: نا يحيى عن مِسْعرٍ عن عمرو بن مرة عن رجل.
قلت: وهذا إسناد ضعيف؛ لأن الرجل الذي لم يُسمّ في رواية مسعر هذه قد سماه شعبة: عاصماً في الرواية التقدمة، وقد ذكرنا هناك أنه غير معروف. فهو علة الحديث.