تشریح:
وضاحت:
۱؎: ان دونوں لفظوں کے ساتھ اس حدیث کو روایت کرنے والے ابن عمر رضی اللہ عنہما جن کی سمجھ کی داد خود نبی اکرمﷺ نے دی ہے، اورجو اتباع سنت میں اس حد تک بڑھے ہوے تھے کہ جہاں نبی اکرمﷺ نے اونٹ بیٹھا کر پیشاب کیا تھا وہاں آپﷺ بلاضرورت بھی اقتداء میں بیٹھ کر پیشاب کرتے تھے تو یہ کیسے سوچا جا سکتا ہے کہ آپ جو ایک مٹھی سے زیادہ اپنی داڑھی کو کاٹ دیا کرتے تھے یہ فرمانِ رسولﷺ کی مخالفت ہے؟ بات یہ نہیں ہے، بلکہ صحیح بات یہ ہے کہ ابن عمر کا یہ فعل حدیث کے خلاف نہیں ہے، (توفیر) اور (اعفاء) کا مطلب ایک مٹھی سے زیادہ کاٹنے پر بھی حاصل ہو جاتا ہے، آپ از حد متبع سنت صحابی ہیں نیز عربی زبان کے جانکار ہیں، آپ سے زیادہ فرمان رسول کو کون سمجھ سکتا ہے؟ اورکون اتباع کر سکتا ہے؟۔ اس لیے جو اہل علم داڑھی کو ایک قبضہ کے بعد کاٹنے کا فتوی دیتے ہیں ان کی بات میں وزن ہے اوریہ ان مسائل میں سے ہے جس میں علماء کا اختلاف قوی اورمعتبر ہے، واللہ اعلم۔