قسم الحديث (القائل): موقوف ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

جامع الترمذي: أَبْوَابُ تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ (بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ الرُّومِ​)

حکم : حسن 

3194. حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَعِيلَ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ حَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي الزِّنَادِ عَنْ أَبِي الزِّنَادِ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ نِيَارِ بْنِ مُكْرَمٍ الْأَسْلَمِيِّ قَالَ لَمَّا نَزَلَتْ الم غُلِبَتْ الرُّومُ فِي أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ فِي بِضْعِ سِنِينَ فَكَانَتْ فَارِسُ يَوْمَ نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ قَاهِرِينَ لِلرُّومِ وَكَانَ الْمُسْلِمُونَ يُحِبُّونَ ظُهُورَ الرُّومِ عَلَيْهِمْ لِأَنَّهُمْ وَإِيَّاهُمْ أَهْلُ كِتَابٍ وَفِي ذَلِكَ قَوْلُ اللَّهِ تَعَالَى وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ بِنَصْرِ اللَّهِ يَنْصُرُ مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ وَكَانَتْ قُرَيْشٌ تُحِبُّ ظُهُورَ فَارِسَ لِأَنَّهُمْ وَإِيَّاهُمْ لَيْسُوا بِأَهْلِ كِتَابٍ وَلَا إِيمَانٍ بِبَعْثٍ فَلَمَّا أَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى هَذِهِ الْآيَةَ خَرَجَ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَصِيحُ فِي نَوَاحِي مَكَّةَ الم غُلِبَتْ الرُّومُ فِي أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ فِي بِضْعِ سِنِينَ قَالَ نَاسٌ مِنْ قُرَيْشٍ لِأَبِي بَكْرٍ فَذَلِكَ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ زَعَمَ صَاحِبُكَ أَنَّ الرُّومَ سَتَغْلِبُ فَارِسَ فِي بِضْعِ سِنِينَ أَفَلَا نُرَاهِنُكَ عَلَى ذَلِكَ قَالَ بَلَى وَذَلِكَ قَبْلَ تَحْرِيمِ الرِّهَانِ فَارْتَهَنَ أَبُو بَكْرٍ وَالْمُشْرِكُونَ وَتَوَاضَعُوا الرِّهَانَ وَقَالُوا لِأَبِي بَكْرٍ كَمْ تَجْعَلُ الْبِضْعُ ثَلَاثُ سِنِينَ إِلَى تِسْعِ سِنِينَ فَسَمِّ بَيْنَنَا وَبَيْنَكَ وَسَطًا تَنْتَهِي إِلَيْهِ قَالَ فَسَمَّوْا بَيْنَهُمْ سِتَّ سِنِينَ قَالَ فَمَضَتْ السِّتُّ سِنِينَ قَبْلَ أَنْ يَظْهَرُوا فَأَخَذَ الْمُشْرِكُونَ رَهْنَ أَبِي بَكْرٍ فَلَمَّا دَخَلَتْ السَّنَةُ السَّابِعَةُ ظَهَرَتْ الرُّومُ عَلَى فَارِسَ فَعَابَ الْمُسْلِمُونَ عَلَى أَبِي بَكْرٍ تَسْمِيَةَ سِتِّ سِنِينَ لِأَنَّ اللَّهَ تَعَالَى قَالَ فِي بِضْعِ سِنِينَ وَأَسْلَمَ عِنْدَ ذَلِكَ نَاسٌ كَثِيرٌ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ نِيَارِ بْنِ مُكْرَمٍ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي الزِّنَادِ

مترجم:

3194.

نیار بن مکرم اسلمی ؓ کہتے ہیں: جب آیت ﴿المّ غُلِبَتِ الرُّومُ فِي أَدْنَى الأَرْضِ وَهُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ فِي بِضْعِ سِنِينَ﴾ نازل ہوئی، اس وقت اہل فارس روم پر غالب وقابض تھے، اور مسلمان چاہتے تھے کہ رومی ان پر غالب آ جائیں، کیوں کہ رومی اور مسلمان دونوں ہی اہل کتاب تھے، اور اسی سلسلے میں یہ آیت: ﴿وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ بِنَصْرِ اللَّهِ يَنْصُرُ مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ ﴾۱؎ بھی اتری ہے، قریش چاہتے تھے کہ اہل فارس غالب ہوں کیوں کہ وہ اورا ہل فارس دونوں ہی نہ تو اہل کتاب تھے، اور نہ دونوں ہی قیامت پر ایمان رکھتے تھے، جب اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی تو ابوبکر صدیق ؓ مکہ کے اطراف میں اعلان کرنے نکل کھڑے ہوئے، انہوں نے چیخ چیخ کر (بآواز بلند) اعلان کیا، ﴿المّ غُلِبَتِ الرُّومُ فِي أَدْنَى الأَرْضِ وَهُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ فِي بِضْعِ سِنِينَ﴾ (رومی مغلوب ہو گئے زمین میں، وہ مغلوب ہو جانے کے بعد چند سالوں میں پھر غالب آ جائیں گے) توقریش کے کچھ لوگوں نے ابوبکر ؓ سے کہا: آؤ ہمارے اور تمہارے درمیان اس بات پر شرط ہو جائے، تمہارے ساتھی (نبی) کا خیال ہے کہ رومی فارسیوں پر چند سالوں کے اند ر اندر غالب آ جائیں گے، کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہم سے اس بات پر شرط لگا لیں، انہوں نے کہا: کیوں نہیں ؟ ہم تیار ہیں، ابوبکر اور مشرکین دونوں نے شرط لگا لی، اور شرط کا مال کہیں رکھوا دیا، مشرکین نے ابوبکر سے کہا: تم بضع کو تین سے ۹ سال کے اندر کتنے سال پر متعین ومشروط کرتے ہو؟ ہمارے اور اپنے درمیان بیچ کی ایک مدت متعین کرلو، جس پر فیصلہ ہو جائے، راوی کہتے ہیں: انہوں نے چھ سال کی مدت متعین اور مقرر کر دی۔ راوی کہتے ہیں کہ روم کے مشرکین پر غالب آنے سے پہلے چھ سال گزر گئے تو مشرکین نے ابوبکر کے بطور شرط جمع کرائے ہوئے مال کو لے لیا، مگر جب ساتواں سال شروع ہوا اور رومی فارسیوں پر غالب آ گئے، تو مسلمانوں نے ابوبکر ؓ پر نکتہ چینی کی کہ یہ ان کی غلطی تھی کہ چھ سال کی مدت متعین کی جب کہ اللہ تعالیٰ نے بضع سنین کہا تھا، (اور بضع تین سال سے ۹سال تک کے لیے مستعمل ہوتا ہے)۔ راوی کہتے ہیں: اس پیشین گوئی کے برحق ثابت ہونے پر بہت سارے لوگ ایمان لے آئے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث نیار بن مکرم کی روایت سے حسن صحیح غریب ہے، ہم اسے صرف عبدالرحمن بن ابوالزناد کی روایت سے ہی جانتے ہیں۔