تشریح:
وضاحت:
۱؎: نماز کے اندر سے مراد ہے کہ آخری رکعت میں درود کے بعد اور سلام سے پہلے نماز میں دعاء کا یہی محل ہے جس کے بارے میں اللہ کے رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے کہ دعاء میں کوشش کرو۔
۲؎: یعنی: پوری نماز سے فارغ ہو کر صرف سلام کرنا باقی رہ جائے، یہ معنی اس لیے لینا ہو گا کہ اسی حدیث میں آ چکا ہے کہ پہلے شخص نے نماز کے اندر دعاء کی تھی اس پر آپﷺ نے فرما یا تھا کہ اس نے صلاۃ ( درود) نہ بھیج کر جلدی کی، نیز دعا اللہ سے قرب کے وقت زیادہ قبول ہوتی ہے اور بندہ سلام سے پہلے اللہ سے بنسبت سلام کے بعد زیادہ قریب ہوتا ہے، ویسے سلام کے بعد بھی دعا کی جا سکتی ہے، مگر شرط وہی ہے کہ پہلے حمدوثنا اور درود و سلام کا نذرانہ پیش کر لے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح، وصححه ابن حبان (1957) ، والحاكم والذهبي) . إسناده: حدثنا أحمد بن حنبل: ثنا عبد الله بن يزيد: ثنا حيوة: أخبرني أبو هانئ حمَيْدُ بن هانئ أن أبا علي عمرو بن مالك حدثه أنه سمع فَضَالة بن عُبَيْدٍ
صاحب رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
قلت: وهذا إسناد صحيح، رجاله ثقات رجال مسلم؛ غير أبي علي عمرو بن مالك، وهو ثقة. والحديث في "مسند أحمد" (6/18) ... بهذا السند.وأخرجه الترمذي (2/260) ، وابن حبان (510) ، والحاكم (1/230) ، والبيهقي (2/147) من طرق أخرى عن عبد الله بن يزيد المُقْرِئ... به. وقال
الترمذي: " حديث حسن صحيح ". وقال الحاكم: " صحيح على شرط مسلم،! ووافقه الذهبي! وذلك من أوهامهما؛ فإن أبا علي هذا لم يخرج له مسلم شيئاً.
وتابعه ابن وهب عن أبي هانئ... به: أخرجه النسائي (1/189) . ورِشْدِين بن سعد عنه: أخرجه الترمذي، وقال:
"حديث حسن ".