تشریح:
۱؎: عمر رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کی تخریج امام مسلم نے اپنی صحیح میں ایک دوسری سند سے کی ہے (رقم:۲۳۴) اور اس میں ((اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي مِنْ التَّوَّابِينَ وَاجْعَلْنِي مِنْ الْمُتَطَهِّرِينَ)) کا اضافہ نہیں ہے، اور یہ روایت اضطراب سے پاک اور محفوظ ہے، احناف اور شوافع نے اپنی کتابوں میں ہرعضو کے دھونے کے وقت جو الگ الگ دعائیں نقل کی ہیں: مثلاً چہرہ دھونے کے وقت ((اللهم بيض وجهي يوم تبيض وجوه)) اور دایاں ہاتھ دھونے کے وقت ((اللهم أعطني كتابي في يميني وحاسبني حساباً يسيراً)) ان کی کوئی اصل نہیں ہے۔
۲؎: ترمذی کی سند میں ’’ابو ادریس کی روایت براہ راست عمر رضی اللہ عنہ سے ہے، لیکن زید بن حباب ہی سے مسلم کی بھی روایت ہے مگر اس میں ’’ابو ادریس‘‘ کے بعد ’’جبیر بن نفیرعن عقبہ بن عامر، عن عمر‘‘ ہے جیسا کہ ترمذی نے خود تصریح کی ہے، بہر حال ترمذی کی روایت میں ((اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي...)) کا اضافہ بزار اور طبرانی کے یہاں ثوبان رضی اللہ عنہ کی حدیث میں موجود ہے، حافظ ابن حجر نے اس کو تلخیص میں ذکر کر کے سکوت اختیار کیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: الإرواء رقم ۹۶، وصحیح أبی داود رقم ۱۶۲)
نوٹ: (سند میں اضطراب ہے، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث مذکور اضافہ کے ساتھ صحیح ہے، ملاحظہ ہو: صحیح أبی داود رقم ۱۶۲)