تشریح:
۱؎: اس میں بالاتفاق ’’حَوَلَانُ الْحَوْل‘‘ (سال کا پورا ہونا) شرط نہیں، البتہ نصاب شرط ہے یا نہیں جمہور آئمہ عشر یا نصف عشر کے لیے نصاب کو شرط مانتے ہیں، جب تک پانچ وسق نہ ہو عشر یا نصف عشر واجب نہیں ہو گا، اور امام ابو حنیفہ کے نزدیک نصاب شرط نہیں، وہ کہتے ہیں: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَنفِقُواْ مِن طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُم مِّنَ الأَرْضِ وَلاَ تَيَمَّمُواْ الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنفِقُونَ وَلَسْتُم بِآخِذِيهِ إِلاَّ أَن تُغْمِضُواْ فِيهِ وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ﴾ [البقرة:267] (اے ایمان والو!اپنی پاکیزہ کمائی میں سے اورزمین میں سے تمہارے لیے ہماری نکالی ہوئی چیزوں میں سے خرچ کرو ، ان میں سے بری چیزوں کے خرچ کر نے کا قصد نہ کرنا، جسے تم خودلینے والے نہیں ہو، ہاں اگرآنکھیں بندکرلو تو ،اور جان لو اللہ تعالیٰ بے پرواہ اور خوبیوں والا ہے)۔ ﴿مِمَّا أَخْرَجْنَا﴾ میں ’’ما‘‘ کلمہء عموم ہے اس طرح ((فِيمَا سَقَتْ السَّمَاءُ وَفِيمَا سُقِيَ بِالنَّضْحِ)) میں بھی’’ما‘‘ کلمہء عموم ہے۔
۲؎: اور جو آگے آ رہی ہے۔