تشریح:
۱؎: اس حدیث سے موزوں پر مسح کا جواز ثابت ہوتا ہے، موزوں پر مسح کی احادیث تقریباً اسی(۸۰) صحابہ کرام سے آئی ہیں جن میں عشرہ مبشرہ بھی شامل ہیں، علامہ ابن عبدالبر نے اس کے ثبوت پر اجماع نقل کیا ہے، امام کرخی کی رائے ہے کہ مسح علی خفین (موزوں پرمسح) کی احادیث تواتر تک پہنچی ہیں اور جو لوگ ان کا انکار کرتے ہیں مجھے ان کے کفرکا اندیشہ ہے، جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ مسح خفین کی حدیثیں آیت مائدہ سے منسوخ ہیں ان کا یہ قول درست نہیں کیونکہ مسح علی خفین کی حدیث کے راوی جریر رضی اللہ عنہ آیت مائدہ کے نزول کے بعد اسلام لائے، اس لیے یہ کہنا صحیح نہیں کہ یہ احادیث منسوخ ہیں بلکہ یہ آیت مائدہ کی مبیّن اورمخصص ہیں، یعنی آیت میں پیروں کے دھونے کا حکم ان لوگوں کے ساتھ خاص ہے جو موزے نہ پہنے ہوں، رہا موزے پر مسح کا طریقہ تو اس کی صحیح صورت یہ ہے کہ ہاتھ کی پانچوں انگلیوں کو پانی سے بھگو کر ان کے پوروں کو پاؤں کی انگلیوں سے پنڈلی کے شروع تک کھینچ لیاجائے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: حديث حسن، وصححه ابن خزيمة والحاكم، ووافقه الذهبي) . إسناده: حدثنا علي بن الحسين الدِّرْهَمِيُ: ثنا ابن داود عن بُكَيْرِ بن عامر عن أبي زرعة بن عمرو بن جرير. وهذا إسناد حسن في المتابعات، رجاله كلهم ثقات؛ غير بكير بن عامر؛ وهو مختلف فيه. وقد قال الآجري عن المؤلف: " ليس بالمتروك ". وقال ابن عدي: " ليس كثير الرواية ، ورواياته قليلة، ولم أجد له متناً منكراً، وهو ممن يكتب حديثه ". والحديث أخرجه الحاكم (1/169) من طريق جعفر بن أحمد بن نصر: ثنا علي بن الحسين الدرهمي: ثنا عبد الله بن داود... به. ثمّ أخرجه، ومن طريقه البيهقي (1/270) من طريق أبي الحسن محمد بن غسان القزاز: ثنا عبد الله بن داود... به. وقال الحاكم: " حديث صحيح؛ وبكير بن عامر العجلي كوفي ثقة عزيز الحديث، يجمع
حديثه في ثقات الكوفيين "! ووافقه الذهبي. قال الزيلعي (1/162) : " بهذا السند والمتن؛ رواه ابن خزيمة في "صحيحه
وللحديث طريق أخرى: عند الدارقطني (71) ، والبيهقي (1/273 و 274) عن شهر بن حوشب عن جرير بن عبد الله... به. فهذا مما يقوّي الطريق الأولى؛ فيكون الحديث حسناً. وهو في "الصحيحبن " وغيرهما بنحوه؛ دون قوله: قالوا... إلخ.