قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

جامع الترمذي: أَبْوَابُ الْجَنَائِزِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ (بَابُ مَا جَاءَ فِي الْوَصِيَّةِ بِالثُّلُثِ وَالرُّبُعِ​)

حکم : صحیح 

975. حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ عَنْ سَعْدِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ عَادَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا مَرِيضٌ فَقَالَ أَوْصَيْتَ قُلْتُ نَعَمْ قَالَ بِكَمْ قُلْتُ بِمَالِي كُلِّهِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ قَالَ فَمَا تَرَكْتَ لِوَلَدِكَ قُلْتُ هُمْ أَغْنِيَاءُ بِخَيْرٍ قَالَ أَوْصِ بِالْعُشْرِ فَمَا زِلْتُ أُنَاقِصُهُ حَتَّى قَالَ أَوْصِ بِالثُّلُثِ وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ قَالَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَنَحْنُ نَسْتَحِبُّ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ الثُّلُثِ لِقَوْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَبُو عِيسَى حَدِيثُ سَعْدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ عَنْهُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ وَقَدْ رُوِيَ عَنْهُ وَالثُّلُثُ كَبِيرٌ وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ لَا يَرَوْنَ أَنْ يُوصِيَ الرَّجُلُ بِأَكْثَرَ مِنْ الثُّلُثِ وَيَسْتَحِبُّونَ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ الثُّلُثِ قَالَ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ كَانُوا يَسْتَحِبُّونَ فِي الْوَصِيَّةِ الْخُمُسَ دُونَ الرُّبُعِ وَالرُّبُعَ دُونَ الثُّلُثِ وَمَنْ أَوْصَى بِالثُّلُثِ فَلَمْ يَتْرُكْ شَيْئًا وَلَا يَجُوزُ لَهُ إِلَّا الثُّلُثُ

مترجم:

975.

سعد بن مالک (سعد بن ابی وقاص) ؓ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے میری عیادت فرمائی، میں بیمار تھا۔ توآپﷺ نے پوچھا: ’’کیا تم نے وصیت کردی ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا: جی ہاں (کردی ہے)، آپﷺ نے فرمایا: ’’کتنے کی؟‘‘ میں نے عرض کیا: اللہ کی راہ میں اپنے سارے مال کی۔ آپﷺ نے پوچھا: ’’اپنی اولادکے لیے تم نے کیاچھوڑا؟‘‘ میں نے عرض کیا: وہ مال سے بے نیازہیں، آپ نے فرمایا: ’’دسویں حصے کی وصیت کرو۔‘‘ تو میں برابراسے زیادہ کراتا رہا یہاں تک کہ آپﷺ نے فرمایا: ’’تہائی مال کی وصیت کرو، اور تہائی بھی زیادہ ہے۔‘‘ ابوعبدالرحمن (نسائی) کہتے ہیں: ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے اس فرمان کی وجہ سے کہ ’’تہائی مال کی وصیت بھی زیادہ ہے‘‘ مستحب یہی سمجھتے ہیں کہ تہائی سے بھی کم کی وصیت کی جائے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱۔ سعد ؓ کی حدیث حسن صحیح ہے۔
۲۔ سعد ؓ سے یہ حدیث دوسرے اور طرق سے بھی مروی ہے۔
۳۔ اس باب میں ابن عباس ؓ سے بھی روایت ہے۔ اوران سے «والثلث كثير» کی جگہ «والثلث كبير» (تہائی بڑی مقدارہے) بھی مروی ہے۔
۴۔ اہل علم کا اسی پر عمل ہے، وہ اس بات کوصحیح قرارنہیں دیتے کہ آدمی تہائی سے زیادہ کی وصیت کرے اورمستحب سمجھتے ہیں کہ تہائی سے کم کی وصیت کرے۔
۵۔ سفیان ثوری کہتے ہیں: لوگ چوتھائی حصہ کے مقابل میں پانچویں حصہ کو اور تہائی کے مقابلے میں چوتھائی حصہ کومستحب سمجھتے تھے، اور کہتے تھے کہ جس نے تہائی کی وصیت کردی اس نے کچھ نہیں چھوڑا۔ اور اس کے لیے تہائی سے زیادہ جائزنہیں۔