قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

جامع الترمذي: أَبْوَابُ الْجَنَائِزِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ (بَابُ مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ النَّعْيِ​)

حکم : ضعیف 

985. حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَانِ الْمَخْزُومِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ الْوَلِيدِ الْعَدَنِيُّ، عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، عَنْ أَبِي حَمْزَةَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِاللهِ، نَحْوَهُ. وَلَمْ يَرْفَعْهُ. وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ وَالنَّعْيُ أَذَانٌ بِالْمَيِّتِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ عَنْبَسَةَ عَنْ أَبِي حَمْزَةَ، وَأَبُو حَمْزَةَ. هُوَ مَيْمُونٌ الأَعْوَرُ. وَلَيْسَ هُوَ بِالْقَوِيِّ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَبْدِاللهِ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ. وَقَدْ كَرِهَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ النَّعْيَ. وَالنَّعْيُ عِنْدَهُمْ أَنْ يُنَادَى فِي النَّاسِ أَنَّ فُلاَنًا مَاتَ، لِيَشْهَدُوا جَنَازَتَهُ. و قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: لاَ بَأْسَ أَنْ يُعْلِمَ أَهْلَ قَرَابَتِهِ وَإِخْوَانَهُ. وَرُوِيَ عَنْ إِبْرَاهِيمَ أَنَّهُ قَالَ: لاَ بَأْسَ بِأَنْ يُعْلِمَ الرَّجُلُ قَرَابَتَهُ

مترجم:

985.

اس سند سے بھی عبداللہ بن مسعود ؓ سے اسی طرح مروی ہے، اور راوی نے اسے مرفوع نہیں کیا ہے۔ اور اس نے اس میں اس کا بھی ذکرنہیں کیا ہے کہ ’’نعی موت کے اعلان کانام ہے‘‘۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- عبداللہ بن مسعود ؓ کی حدیث حسن غریب ہے۔
۲- یہ عنبسہ کی حدیث سے جسے انہوں نے ابو حمزہ سے روایت کیا ہے زیادہ صحیح ہے۔
۳- ابو حمزہ ہی میمون اعور ہیں، یہ اہل حدیث کے نزدیک قوی نہیں ہیں۔
۴- بعض اہل علم نے نعی کو مکروہ قرار دیا ہے، ان کے نزدیک نعی یہ ہے کہ لوگوں میں اعلان کیا جائے کہ فلاں مر گیا ہے تاکہ اس کے جنازے میں شرکت کریں۔
۵- بعض اہل علم کہتے ہیں: اس میں کوئی حرج نہیں کہ اس کے رشتے داروں اور اس کے بھائیوں کو اس کے مرنے کی خبر دی جائے۔
۶ - ابراہیم نخعی کہتے ہیں کہ اس میں کوئی حرج نہیں کہ آدمی کو اس کے اپنے کسی قرابت دار کے مرنے کی خبر دی جائے۔