تشریح:
۱؎: جمہور نے باب کی حدیث کو استحباب پر محمول کیا ہے کیونکہ ابن عباس کی ایک روایت میں ہے «لَيْسَ عَلَيْكُمْ فِيْ غُسْلِ مَيِّتِكُمْ إِذَاغَسَلْتُمُوْهُ إِنَّ مَيِّتِكُمْ يَمُوْتُ طَاهِرًا وَلَيْسَ بِنَجْسٍ فَحَسْبُكُمْ أنْ تَغْسِلُوْا أَيْدِيْكُمْ» ’’جب تم اپنے کسی مردے کو غسل دو تو تم پر غسل واجب نہیں ہے، اس لیے کہ بلاشبہ تمہارا فوت شدہ آدمی (یعنی عورتوں، مردوں، بچوں میں سے ہر ایک) پاک ہی مرتا ہے، وہ ناپاک نہیں ہوتا تمہارے لیے یہی کافی ہے کہ اپنے ہاتھ دھو لیا کرو‘‘ لہذا اس میں اور باب کی حدیث میں تطبیق اس طرح دی جائے کہ ابو ہریرہ کی حدیث کو استحباب پر محمول کیا جائے، یا یہ کہا جائے کہ غسل سے مراد ہاتھوں کا دھونا ہے، اور صحیح قول ہے کہ میت کو غسل دینے کے بعد نہانا مستحب ہے۔
۲؎: انہوں نے باب کی حدیث کو غسل کے وجوب پر محمول کیا ہے۔