تشریح:
فوائد و مسائل:
(1) حرم سے مراد و ہ علاقہ ہے۔ جس میں شکار کرنا درخت کاٹنا اور گھاس اکھاڑنا منع ہے۔ اس کے علاوہ پوری زمین حل ہے یعنی جہاں یہ پابندیاں نہیں۔
(2) حرم کی حدود میں اگرچہ جانوروں کا شکار منع ہے۔ تاہم موذی جانوروں کو وہاں بھی قتل کیا جا سکتا ہے۔
(3) بحیثیت انسان ہونے کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی وہ تکالیف آتی تھیں۔ جو دوسرے انسانوں پر آتی ہیں۔ مثلا بیمار ہونا، زخمی ہونا، بھوک، پیاس کی حاجت پیش آنا، غمگین ہونا، خوش ہونا، بھول جاناوغیرہ۔ ان تمام حالات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال ہمارے لئے اسوہ ہیں۔
(4) بُرے اور مجرم آدمی کو اس کے جرم اور گناہ کی نسبت سے لعنت کا لفظ بول دینا جائز ہے۔ جیسے قرآن مجید نے جھوٹ بولنے والے پر اور حدیث میں انبیاء اور اولیاء کی قبروں کو سجدہ گاہیں بنانے والے پر، غیر اللہ کے لئے جانور ذبح کرنے والےپر، والدین کو لعنت کرنے والے پر، بیوی سے خلاف وضع فطری کا ارتکاب کرنے والے اور متعدد دوسرے جرائم کے مرتکب پر لعنت وارد ہے۔ دیکھئے: (سورہ آل عمران، آیت:61 وصحیح البخاري، الصلاۃ، باب:55، حدیث: 436،435)
الحکم التفصیلی:
قال الألباني في "السلسلة الصحيحة" 2 / 80 :
رواه ابن ماجه ( 1246 ) و ابن عدي ( 68 / 1 ) عن الحكم بن عبد الملك عن قتادة
عن سعيد بن المسيب عن عائشة قالت : لدغ النبي صلى الله عليه وسلم عقرب و هو
يصلي فقال : فذكره . و قال ابن عدي : " لا أعرفه إلا من حديث الحكم عن قتادة ،
قال ابن معين ضعيف " .
قلت : لكن لم ينفرد به الحكم فقد رواه ابن خزيمة في " صحيحه " عن محمد بن بشار
عن محمد بن جعفر عن شعبة عن قتادة به .
و للحديث شاهد قوي من حديث علي رضي الله عنه ، و فيه بيان سبب وروده و هو :
" لعن الله العقرب لا تدع مصليا و لا غيره . ثم دعا بماء و ملح و جعل يمسح
عليها و يقرأ بـ *( قل يا أيها الكافرون )* و *( قل أعوذ برب الفلق )* و *( قل
أعوذ برب الناس )* " .