تشریح:
فوائد و مسائل:
(1) عبادت اور دعا کی قبولیت کے لحاظ سے بعض اوقات دوسرے اوقات سے افضل ہیں۔ جیسے مہینوں میں رمضان المبارک اور راتوں میں شب قدرافضل ہے۔
(2) رات کے اوقات میں رات کا آخری حصہ افضل ہے۔ اس روایت میں رات کے درمیانی حصے کا ذکر ہے۔ لیکن دیگر محققین نے اس جملے کو دوسری صحیح روایات کے خلاف ہونے کی وجہ سے منکر یعنی ضعیف اور باقی روایت کوصحیح قرار دیا ہے۔ تفصیل کےلئے دیکھئے: (صحیح سنن ابی داؤد (مفصل) للألبانی رقم 1158، وسنن ابن ماجة للدکتور بشارعواد، حدیث:1251) نیز ہمارے فاضل محقق نے اس سے سنداً ضعیف قرار دیا ہے لیکن اس کے شواہد کا ذکر کیا ہے ان شواہد میں سے صحیح مسلم کا حوالہ دیا ہے دیکھئے: تحقیق وتخریج حدیث ہذا۔
(3) نماز تہجد ساری رات میں کسی بھی وقت ادا کرنا جائز ہے۔ لیکن اس کا وقت عشاء کی نماز کے بعد شروع ہوتا ہے۔ اگرعشاء کی نماز اول وقت میں ادا کرلی جائے۔ تو اس کے بعد سے تہجد شروع کی جا سکتی ہے۔ لیکن اگرعشاء کی نماز تاخیر سے پڑھی جائے۔ تو تہجد اس کے بعد ہی پڑھ سکتے ہیں۔ پہلے نہیں۔
(4) صبح صادق سے طلوع آفتاب تک صرف فجر کی نماز سنت اورفرض کا وقت ہے۔ اس کے علاوہ اس دوران میں نوافل ادا نہیں کرنے چاہیے۔
(5) سورج طلوع ہونے کے بعد بھی کچھ ٹھر کر نمازاشراق ادا کرنی چاہیے۔ تاکہ سورج بلند ہوجائے اور وہ وقت گزر جائے۔ جب غیر مسلم سورج کی پوجا کرتے ہیں۔
(6) عین دوپہر کے وقت بھی نفل نمازادا کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔ جب سورج ڈھل جائے تو جائز ہے۔
(7) دوپہر کی گرمی کا جہنم سے تعلق ایک غیبی معاملہ ہے۔ اس پر ایمان رکھنا کافی ہے۔ کیفیت کی تفتیش کرنے کی ضرورت نہیں۔
(8) سورج کے شیطان کے سینگوں کے درمیان طلوع و غروب ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جب کافر ان اوقات میں سورج کو سجدہ کرتے ہیں۔ تو شیطان ان کے سامنے سورج کی طرف آ جاتا ہے۔ اس لئے شیطان کو سجدہ ہوتا ہے اور شیطان اس پر خوش ہو جاتا ہے۔ کیونکہ وہ سمجھتا ہے۔ کہ یہ سورج کی پوجا اصل میں اسی کی عبادت ہے۔
(9) غیر مسلموں سے مشابہت اختیار کرنا منع ہے اگرچہ مسلمان کامقصد غیر اللہ کی عبادت نہ ہو۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح. وأخرج طرفه الأول في جوف الليل: الترمذي
والحاكم وصححاه، وأخرج مسلم وأبو عوانة، وأخرجه الحاكم بإسناد المصنف) .
إسناده: حدثنا الربيع بن نافع. ثنا محمد بن الهاجر عن العباس بن سالم عن أبي سلام عن أبي أمامة عن عمرو بن عبسه. قال العباس: هكذا حدثني ابو سلام عن أبي أمامة؛ إلا أن أخطئ شيئاً لا أريده، فأستغفر الله وأتوب إليه.
قلت: وهذا إسناد صحيح، رجاله كلهم ثقات رجال مسلم؛ غير العباس بن
سالم وهو ثقة. وظاهر كلام ابن أبي حاتم يدل على أن أبا سلام- واسمه ممطور- سمع من أبي أمامة؛ فإنه قال (4/1/431) :
" روى عن ثوبان والنعمان بن بشير وأبي أمامة وسلمى مولى رسول الله-صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
وروى عن عمرو بن عَبَسَةَ مرسل ".
ونقل الحافظ في " التهذيب " عنه ما قد يخالفه؛ فقال:
" وقال ابن أبي حاتم: سمعت أبي يقول: روى ممطور عن ثوبان وعمرو بن عبسة والنعمان وأبي أمامة مرسل. فسألت أبي : هل سمع من ثوبان؟ فقال: لا
أدري "!
قلت: وأنا أظن أن لفظ: " مرسل " مقحم من بعض النساخ؛ لأنه لو كان من قول أبي حاتم؛ لكان معناه أن جميع من روى عنهم ممطور لم يسمع منهم، وفيهم
ثوبان، فما معنى سؤاله إياه بعد ذلك: هل سمع من ثوبان؟! فتأمل.
ثم وجدت تصريحه بالسماع من أبي أمامة.
والحديث أخرجه البيهقي (2/455) من طريق المصنف.
والحاكم (1/163- 165) ... بإسناده.
وأخرجه أحمد (4/111) من طريق يحيى بن أبي عمرو السيْبَانِي عن أبي سلام الدمشقي وعمرو بن عبد الله أنهما سمعا أبا أمامة الباهلي يحدث عن حديث عمرو بن عَبَسَةَ السُّلَمِيِّ.
قلت: فذكر القصة من أولها؛ ولم يستمها بكاملها، ومنه هذا القدر الذي ساقه المصنف.
وهذا إسناد صحيح؛ وفيه تصريح أبي سلام بسماعه من أبي أمامة. وقد تابعه جماعة عن أبي أمامة... به مقتصراً على طرفه الأول؛ وزاد: " فإن استطعت أن تكون ممن يذكر الله في تلك الساعة فَكنْ ".
أخرجه الحاكم (1/309) عنهم، والترمذي (2/277- بولاق) عن واحد منهم، وقال: " حسن صحيح ". والحاكم،
" صحيح على شرط مسلم "، ووافقه الذهبي، وهو كما قالوا.
وأخرج سائر الحديث مع القصة: مسلم (8/202) ، وأبو عوانة (1/386- 387)
- ولم يسقها- والبيهقي من طرق أخرى عن أبي أمامة... به.