تشریح:
فوئاد و مسائل: مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے صحیح، الموسوعۃ الحدیثیہ کے محققین نے اسے سنداً مرسل او دیگر شواہد کی بنا پر صحیح قرار دیا ہے۔ جبکہ شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ مذکورہ روایت کی بابت لکھتے ہیں کہ یہ روایت (فَإِذَا كَانَتْ فِي وَسَطِ السَّمَاءِ قَارَنَهَا فَإِذَا دَلَكَتْ فَارَقَهَا) ’’جب سورج آسمان کے درمیان میں پہنچتا ہے۔ تو شیطان اس سے مل جاتا ہے۔جب ڈھل جاتا ہے تو وہ اس سے الگ ہوجاتا ہے۔‘‘ اس جملے کے علاوہ صحیح ہے۔ تاہم انہی کی رائے أقرب إِلی الصواب معلوم ہوتی ہے۔ کیونکہ مذکورہ روایت کوصحیح کہنے والوں نے اس روایت کے جو شواہد ذکر کیے ہیں۔ ان میں اس جملے کا ذکر نہیں ہے۔ بلکہ ان میں مطلق طور پر تین اوقات میں نماز پڑھنا مکروہ قرار دیا گیا ہے۔ تاہم بعض روایات جو کہ مذکورہ روایت سے زیادہ صحیح ہیں۔ ان میں ممانعت کی وجہ بیان کی گئی ہے۔ کہ دوپہر کے وقت جہنم دکھایا جاتا ہے۔ لہذا مذکورہ روایت میں مذکور نماز کی ممانعت کی وجہ درست نہیں بلکہ صحیح اور درست یہی ہے۔ کہ دوپہر کے وقت جہنم دہکایا جاتا ہے۔ وللہ أعل۔ تفصیل کےلئے دیکھئے: (ضعیف سنن ابن ماجة للألبانی، رقم:2588 وسنن ابن ماجة للدکتور بشار عواد، حدیث: 1253 والموسوعة حدیثية مسند الإمام أحمد:212/31)