تشریح:
فوائد و مسائل:
(1) رمضان کے آخری عشرہ میں عبادت کا اہتمام معمول سے زیادہ کرنا چاہیے۔
(2) نماز تراویح نفل نماز ہے۔ اس لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پورا مہینہ نہیں پڑھائی۔ صرف چند راتیں پڑھائی۔
(3) نماز تراویح میں قیام رکوع اور سجود وغیرہ طویل ہونے سے زیادہ وقت تک نماز اد کی جا سکتی ہے۔ اور کم تلاوت اور مختصر رکوع وسجود کے ساتھ کم وقت میں بھی فراغت حاصل کی جا سکتی ہے۔ اس میں عام نمازیوں کے شوق اور ہمت کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔
(4) نفل نماز میں تلاوت کی کوئی خاص مقد ار مقرر کرنا ضروری نہیں۔ کسی دن طویل اور کسی دن مختصر قیام ہوسکتا ہے۔
(5) طویل نماز پڑھنے کا ارادہ ہو تو تلاوت زیادہ کرلی جائے۔ یا تلاوت ترتیل کے ساتھ کی جائے رکعتیں زیادہ کرنے کی ضرورت نہیں۔ کسی روایت میں یہ صراحت نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان راتوں میں رکعتوں کی تعداد میں اضافہ فرمایا تھا۔ بلکہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے فرمان کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز رمضان میں بھی اوردوسرے مہینوں میں بھی وتروں سمیت گیارہ رکعت ہی ہوتی تھی۔ (صحیح البخاري، التھجد، باب قیام النبی صلی اللہ علیہ وسلم باللیل فی رمضان وغیرہ، حدیث:1147)
(6) نماز تراویح میں عورتوں اور بچوں کو بھی شریک ہونا چاہیے۔
(7) سحری کا کھانا بھی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ مسلمانوں اور غیر مسلموں کے روزوں میں امتیاز بھی ہے۔ اور باعث برکت بھی اس لئے صحابہ کرام رضوان للہ عنہم اجمعین نے اسے فلاح یعنی کامیابی کا نام دیا ہے۔
(8) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پورا رمضان تراویح نہیں پڑھائی کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خطرہ محسوس ہوا کہ اگر فرض ہوگئی۔ تو امت کو اس پر عمل کرنا مشکل ہوگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد چونکہ یہ خطرہ نہیں رہا اس لئے صحابہ کرام رضوان للہ عنہم اجمعین نے پورا مہینہ باجماعت تراویح کا اہتمام فرمایا۔ ویسے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام ر مضان کی ترغٰب دی تھی۔ اس لئے اس پر عمل کرنا مسنون ہے۔ اسے بدعت میں شما ر نہیں کیا جاسکتا۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح، وصححه الترمذي وابن حبان (2538) ) .
إسناده: حدثنا مسدد. ثنا يزِيد بن زرَيْع: أخبرنا داود بن أبي هند عن الوليد بن عبد الرحمن عن جبَيْرٍ بن نفيْرٍ عن أبي ذًرً.
قلت: وهذا إسناد صحيح، رجاله كلهم ثقات رجال مسلم؛ غير مسدد، فهو من رجال البخاري وحده.
والحديث أخرجه بقية أصحاب "السنن " وغيرهم من طرق أخرى عن داود بن أبي هند... به، وهو مخرج في رسالتي "صلاد التراويح " (ص 17) .
ورواه ابن حبان أيضا (919) من ما هذا الوجه.
وله طريق آخر في "المسند" (5/172) من طريق شرَيْحِ بن عُبَيْد الحضرمي يردُّه إلى أبي ذر... به نحوه؛ وفي آخره:
" يا أبا ذر! إنك إذا صليت مع إمامك، وانصرفت إذا انصرف؛ كُتِبَ لك قنوث ليلتك ". ورجاله ثقات؛ لكنْ شريح لم يَلْقَ أبا ذر. وله شاهد في "المستدرك " (1/440) عن النعمان بن بشير... نحوه.
الإرواء (447)