تشریح:
فوئد و مسائل:
(1) قراءت قرآن انتہائی غور وفکر سے کرنی چاہیے۔ خواہ نماز کے دوران میں ہو یا اس کے علاوہ-
(2) تلاوت قرآن کا ایک ادب یہ بھی ہے کہ رحمت کی آیات پر دعا اور آیات عذاب پر تعوذ کیا جائے۔ اور یہ تبھی ممکن ہے جب اس کا ترجمہ اور مفہوم آتا ہو۔ ہمارے ہاں مساجد میں امام کی قراءت کے دوران میں مقتدی بلند آواز سے ان آیات کا جواب دیتے ہیں۔ جو کہ کسی طرح بھی جائز نہیں ہے۔ لہٰذا اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔
(3) اللہ کی تسبیح کا طریقہ یہ ہے کہ سبحان اللہ کہا جائے۔ یعنی اللہ پاک ہے عذاب کی آیت پر (اللهم أَجِرْنِي مِنَ النَّارِ) ’’اے اللہ! مجھے آگ (کے عذاب) سے پناہ دے۔‘‘ یا ایسی کوئی مناسب دعا پڑھی جاسکتی ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط مسلم. وقد أخرجه هو وأبو عوانة في "صحيحيهما"، وقال الترمذي: " حديث حسن صحيح ") .
إسناده: حدثنا حفص بن عمر: ثنا شعبة قال: قلت لسليمان: أدعو في الصلاة إذا مررت بآية تَخَؤُف؟ فحدَّثني عن سعد بن عبَيْدَةَ عن مُسْتوْرِد عن صِلَةَ ابن زُفَرَ عن حذيفة.
قلت : وهذا إسناد صحيح على شرط مسلم، رجاله كلهم ئقات رجال الشيخين؛ غير مستورد- وهو ابن الأحنف الكوفي-؛ أخرج له الجماعة؛ إلا البخاري، وهو ثقة.
والحديث أخرجه أبو داود الطيالسي (1/98/432) : حدثنا شعبة عن الأعمش قال: سمعت سَعْد بن عبيدة... به.
ومن طريقه: أخرجه الترمذي (48/2/262) ، وقال:
" حديث حسن صحيح ".
وأخرجه الدارمي (1/299) ، وأحمد (5/382 و 394) ، والطحاوي (11/38)
من طرق أخرى عن شعبة.
وأخرجه مسلم (2/186) ، وأبو عوانة (2/168- 169) ، والنسائي (1/160
و 245) ، وابن ماجه (407- 408) ، وأحمد (5/384 و 389 و 397) من طرق
أخرى عن الأعمش... به وأتم منه عندهم جميعاً؛ حاشا ابن ماجه.