تشریح:
فوائد و مسائل:
(1) نماز تہجد میں یہ دعا بھی دعائے استفتاح کے طور پر پڑھی جاسکتی ہے۔
(2) جبرائیل، میکائیل اور اسرافیل علیہ السلام اللہ کے مقرب ترین اور افضل ترین فرشتے ہیں۔ لیکن وہ بھی اللہ کے بندے ہیں۔ اور اللہ ان کا بھی رب ہے۔ رب کی صفات اور اختیارات میں ان کا بھی کوئی حصہ نہیں۔ توحید کا یہ نکتہ توجہ کے قابل ہے۔
(3) بندوں کے اختلافات کا فیصلہ دنیا میں انبیائے کرام علیہ السلام کی بعثت اور ان پر وحی کے نزول کے ذریعے سے کردیا گیا ہے۔ پھر بھی بعض لوگ نئے نئے شبہات پیدا کرکے اختلاف ڈالتے ہیں۔ یا حق واضح ہوجانے کے بعد بھی حق کو قبول نہیں کرتے۔ اور جھگرنے سے باز نہیں آتے۔ ان کا فیصلہ قیامت ہی کو ہو گا۔ جب انھیں سزا ملے گی اور نیک لوگ اللہ کے انعامات سے بہرہ ور ہوں گے۔
(4) ہدایت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اس لئے اللہ سے ہدایت کی دعا کرتے رہنا چاہیے۔
(5) جبرئیل کا لفظ کئی طرح پڑھا جا سکتا ہے۔ جَبْرِیْل، جَبْرِیْل، جِبْرَئِیْل، جَبْرَئِیْل، جِبْرَائِیْل۔ لیکن اس دعا میں جبرئیل ہمزہ کے ساتھ ہے۔
(6) محدثین کرام حدیث کےالفاظ پر بھی توجہ دیتے تھے۔ اور ہر لفظ اس طرح روایت کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ جس طرح استاد سے سنا ہو۔ حالانکہ روایت بالمعنیٰ جائز ہے۔ محدثین کے اس طرز عمل سے ان کی دیانت اور صداقت ظاہر ہوتی ہے۔ اور یہ کہ ان کی روایت کردہ احادیث قابل عمل اور قابل اعتماد ہیں۔ بشرط یہ کہ صحت حدیث کے معیار پر پوری اتریں۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده حسن، وهو على شرط مسلم. وقد أخرجه هو وأبو عوانة في "صحيحيهما". وحسنه الترمذي) .
إسناده: حدثنا ابن الثنى: نا عمر بن يونس: نا عكرمة: حدثني يحيى بن أبي كثير: حدثني أبو سلمة بن عبد الرحمن بن عوف.
قلت: وهذا إسناد حسن إن شاء الله تعالى؛ وهو على شرط مسلم؛ وقد أخرجه كما يأتي؛ وفي عكرمة- وهو: ابن عمار- كلام من قبل حفظه.
والحديث أخرجه البيهقي (3/5) من طريق المصنف.
وبإسناده: أخرجه مسلم في "صحيحه " (2/185) عن هذا الشيخ- وهو
محمد بن المثنى- وغيره.
وأخرجه النسائي (1/241- 242) ، والترمذي (2/250- طبع بولاق) - وقال:
" حديث حسن "-، وابن ماجه (1/410) ، والبيهقي أيضا من طرق أخرى عن عمر بن يونس... به.
وأخرجه أبو عوانة (2/304-305 و 305) من طريقين آخرين عن عكرمة... وله عنه طريق رابع، وهو:
743/م- وفي رواية... بإسناده ومعناه؛ قال:
كان إذا قام بالليل؛ كبَّر وبقول...
(قلت: إسناده حسن، وفيه التصريح أن هذا الدعاء كان بعد التكبير) .
إسناده: حدثنا محمد بن رافع: أنا أبو نوح قُراد: نا عكرمة... بإسناده بلا إخبار، ومعناه قال.
قلت: وهذا إسناد حسن أيضا؛ وأبو نوح: اسمه عبد الرحمن بن غزوان، وقراد: لقبه، وهو ثقة، وقد رْاد في الحديث لفظة: كبر؛ وهي منه مقبولة، وهي
زيادة مفيدة؛ حيث عينت موضع قول هذا الدعاء، بينما هو غير واضح في الرواية الأولى، ولذلك عقَيها المصنف رحمه الله بهذه الرواية. والحديث أحْرجه أحمد (6/156) : ثنا قراد أبو نوح: أنا عكرمة بن عمار عن يحيى بن أبي كثير عن أبي سلمة بن عبد الرحمن بن عوف... به.