٭حضرت سلمان فارسی : نام و نسب: آپ سے آپ کے نسب کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا: میں سلمان بن الاسلام ہوں۔ اسلام سے پہلے آپ کا نسب یوں ہے: مابہ بن بوذخشان بن مورسلان بن بھبوذان بن فیروز بن سہرک۔ آپ کی کنیت ابوعبدللہ تھی جبکہ آپ سلمان الخیر کے لقب سے مشہور ہوئے۔ آپ اصفہان کے ایک مجوسی گھرانے میں پیدا ہوئے، پھر عیسائیت کی تعلیم و تربیت میں ایک عرصہ گزارا بالآخر اسلام کی نعمت سے سرفراز ہوئے۔ آپ کے اسلام لانے کا رقت انگیز واقعہ سیرت ابن ہشام، صفۃ الصفوۃ اور اسد الغابہ میں پڑھا جا سکتا ہے۔ اور ان کی اپنی بھی ایک روایت مسند احمد میں ہے جس میں خود انہوں نے اپنی سرگزشت بیان کی ہے، مسند احمد کے محققین نے اس کی سند کو حسن کہا ہے۔ (الموسوعة الحديثية:39/140) حضرت سلمان کی عمر کے بارے میں اختلاف ہے۔ مؤرخین کا ایک گروہ ان کی عمر ڈھائی سو سال سے ساڑھے تین سو سال تک بتلاتا ہے۔ حافظ ابن حجر کہتے ہیں کہ اگر یہ بات ثابت ہو جائے، تو یہ ان کے حق میں خارق عادت (کرامت) بات ہو گی۔ لیکن حافظ ذہبی کہتے ہیں کہ پہلے میں بھی اسی بات کا قائل تھا، لیکن پھر میں نے اس سے رجوع کر لی، میرے خیال میں ان کی عمر 80 سال سے متجاوز نہیں۔ (الاصابة:3/119، بتحقیق جدید) حجرت سلمان کا نصیحت آموز خط جو الدین النصیحۃ کی خوبصورت تعبیر ہے۔ نبی علیہ السلام نے حضرت سلمان کو حضرت ابودرداء کا بھائی بنایا تھا۔ حضرت ابودرداء شام کے علاقے میں چلے گئے جبکہ حضرت سلمان نے عراق کو اپنا مسکن بنایا۔ حضرت ابودرداء نے وہاں سے یہ خظ لکھا: "السلام علیکم! بھائی سلمان! آپ کے جانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے مجھے کثیر اولاد اور مال سے نوازا ہے۔ اور میں ارض مقدس میں رہ رہا ہوں۔ حضرت سلمان نے درج ذیل خوب صورت جواب لکھا: " وعلیکم السلام! بھائی ابودرداء! آپ نے اپنے کثیر مال اور اولاد کی خبر دی ہے، خوب یاد رکھیں کہ خیر ، وافر مال اور کثیر اولاد میں نہیں بلکہ خیر تو یہ ہے کہ آپ کی بردباری اور تحمل بڑھے اور آپ کا علم آپ کے لیے مفید ہو۔ آپ نے یہ بھی لکھا ہے کہ ارض مقدس کو مسکن بنائے ہوئے ہیں تو یقین جانیں کہ زمین کسی کے لیے کچھ عمل نہیں کرتی، لہذا نیک اعمال کو پورے اخلاص سے ادا کریں اور اپنے آپ کو اس دنیا سے جانے والا مسافر سمجھیں۔
٭ حضرت ابوذرغفاری : نام و نسب: جندب بن جنازہ بن سفیان بن عبید بن حرام بن غفار الغفاری، آپ کی کنیت ابوذر ہے اور اسی سے آپ مشہور ہیں۔ آپ جب مکہ مکرمہ میں اسلام لائے تو مسلمانوں میں آپ کا چوتھا یا پانچواں نمبر تھا۔ 32 ہجری میں آپ ربذہ مقام پر فوت ہوئے اور حضرت عبداللہ بن مسعود نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی۔ آپ زہد و تقویٰ میں بہت بلند مقام پر فائز تھے۔ سرکاری ہدایا اور مناصب سے دور بھاگتے تھے۔ دنیا سے بے زاری اور آخرت کا شوق آپ کا نصب العین رہا۔
٭ حضرت مقداد بن عمرو : نام و نسب: مقداد بن عمرو بن ثعلبہ بن مالک بن ربیعہ بن ثمامہ بن مطرود البھرانی۔ زمانہ جاہلیت میں آپ اسود بن عبد یغوث الزہری کے حلیف بنے۔ اسود نے آپ کو منہ بولا بیٹا بنا لیا۔ اسی وجہ سے آپ کو مقداد بن اسود بھی کہا جاتا ہے۔ اسی نام سے آپ مشہور ہو گئے۔ مکہ مکرمہ میں سب سے پہلے اسلام کا اعلان کرنے والوں میں آپ بھی شامل تھے۔ جنگ بدر میں مسلمانوں میں سے صرف آپ ہی کے پاس گھوڑآ تھا۔ اس طرح جہاد فی سبیل اللہ میں پہلا مسلمان گھوڑسوار ہونے کا اعزاز بھی آپ کو ملا۔ حضرت عثمان کے عہد حکومت میں آپ ستر برس کی عمر میں فوت ہوئے۔ آپ کی نماز جنازہ حضرت عثمان نے پڑھائی۔