تشریح:
(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بھی جسمانی تکلیفیں برداشت کرنا پڑیں۔ لیکن مذکورہ بالا صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے جو تکلیفیں برداشت کیں، وہ بہت شدید تھیں۔ ابو طالب کو اہل مکہ میں ایک معزز مقام حاصل تھا، لہذا بہت سے لوگ ابوطالب کا احترام کرتے ہوئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف دینے سے اجتناب کرتے تھے۔ اسی طرح حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بھی ان کے قبیلے کا لحاظ کر کے چھوڑ دیا جاتا تھا۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ انہیں جسمانی طور پر تکلیفیں بالکل نہیں پہنچیں، البتہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ وغیرہ کو بے حد تکلیفیں پہنچائی گئیں۔
(2) صحابہ کرام رضی اللہ عھم نے مشرکین کی موافقت میں زبان سے جو کچھ کہا، اس سے ان کے مقام و مرتبہ میں کوئی فرق نہیں آیا کیونکہ ایسے موقع پر جب مصائب برداشت سے باہر ہو جائیں، جان بچانے کے لیے کلمہ کفر کہنے کی اجازت خود قرآن نے دی ہے۔ (دیکھیے: سورہ نحل:106)
(3) اس سے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی استقامت و عظمت ظاہر ہوتی ہے کہ انہوں نے رخصت کے بجائے عزیمت کا راستہ اختیار کیے رکھا، اور زبان سے کبھی ایک بار بھی ان کی مرضی کے مطابق کوئی لفظ نہیں بولا، حالانکہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو جو تکلیفیں دی گئی ہیں، وہ اتنی شدید ہیں کہ ان کے تصور سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔