تشریح:
فوائد و مسائل:
(1) مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قراردیا ہے۔ جبکہ دیگر محققین نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ مذکورہ روایت میں دو مسئلے بیان ہوئے ہیں۔ ایک بچے کی نماز جنازہ کا، جس کا ذکر گزشتہ روایت میں بھی ہے۔ اور ہمارے فاضل محقق نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ دوسرا مسئلہ بچے کے وارث ہونے کا ہے۔ یہ مسئلہ سنن ابن ماجہ کی ایک دوسری روایت 2751 میں بھی مروی ہے۔ جسے ہمارے فاضل محقق نے سنداً حسن قرار دیا ہے۔ لہٰذا مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود دیگر روایات کی رو سے قابل عمل اور قابل حجت ہے۔ تفصیل کےلئے دیکھئے: (الصحیحة، رقم:153،152)
(2) پیدائش کے وقت بچے کا رونا اس کے زندہ پیدا ہونے کی علامت ہے۔ اس لئے جب وہ زندہ پیدا ہونے کے تھوڑی دیر بعد فوت ہو جائے۔ تو اس کا حکم وہی ہوگا جو طویل عرصہ تک زندہ رہ کرفوت ہونے والے کا ہوگا۔ گزشتہ حدیث کے فوائد ومیں بیان ہوچکا ہے۔ کہ جنازہ نا تمام بچے کا بھی پڑھا جائے گا۔ البتہ وراثت کےلئے شرط ہے کہ بچہ زندہ پیدا ہو یعنی مردہ پیدا ہونے والا بچہ وارث نہیں ہوگا۔ اس لئے اس کی وراثت بھی تقسیم نہیں ہوگی۔ اگرچہ تخلیق مکمل ہونے پر پیدا ہواہو۔
الحکم التفصیلی:
قال الألباني في "السلسلة الصحيحة" 1 / 234 :
رواه أبو داود ( 2920 ) عن محمد بن إسحاق عن يزيد بن عبد الله بن قسيط عن أبي هريرة مرفوعا .
و عن أبي داود رواه البيهقي ( 6 / 257 ) و ذكر أن ابن خزيمة أخرجه من هذا الوجه .
قلت : و رجاله ثقات ، إلا أن ابن إسحاق مدلس ، و قد عنعنه . و لكن له شاهد من حديث جابر مرفوعا .
رواه ابن ماجه ( 2750 ) عن الربيع بن بدر حدثنا أبو الزبير عنه .
قلت : و الربيع بن بدر متروك ، لكن تابعه المغيرة بن مسلم و سفيان عن
أبي الزبير به .
أخرجه الحاكم ( 4 / 348 ، 349 ) و قال :
" صحيح على شرط الشيخين " . و وافقه الذهبي .
قلت : بل على شرط مسلم فقط ، على أن أبا الزبير مدلس و قد عنعن .
و له شاهد من حديث ابن عباس مرفوعا .
أخرجه ابن عدي ( ق 193 / 1 ) من طريق شريك عن أبي إسحاق عن عطاء عنه .
قلت : و هذا سند لا بأس به في الشواهد ، فإن شريكا هو ابن عبد الله القاضي ثقة إلا أنه سيء الحفظ ، و مثله أبو إسحاق و هو السبيعي فإنه كان اختلط .
( فائدة ) في حديث جابر و المسور المتقدم تفسير استهلال الصبي بقوله : أن يصيح أو يعطس أو يبكي " . و هو حديث صحيح كما تقدم ، فلا يغتر بقول
الصنعاني في " سبل السلام " ( 3 / 133 ) :
" و الاستهلال روي في تفسيره حديث مرفوع ضعيف : " الاستهلال العطاس " . أخرجه
البزار " . فإن الذي أخرجه البزار . إنما هو من حديث ابن عمر باللفظ الذي ذكره الصنعاني ، و فيه محمد بن عبد الرحمن بن البيلمان و هو ضعيف . كما في " المجمع " ، فهذا غير حديث جابر و المسور فتنبه .
الإرواء (1704)