تشریح:
فوائد و مسائل:
(1) مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے۔ اور مزید لکھا ہے کہ اس روایت سے آئندہ آنے والی روایت کفایت کرتی ہے۔ غالباً اسی وجہ سے دیگر محققین نے مذکورہ روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔ الحاصل مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہے۔ لیکن دیگر روایات کی وجہ سے معناً صحیح ہے۔ تفصیل کےلئے دیکھئے: (الموسوعة الحدیثیة مسند الإمام أحمد:487،486/47 وصحیح ابن ماجة، رقم:1266)
(2) قبروں کی زیارت مسنون ہے۔ تاکہ موت یاد آئے اور دنیا سے بے رغبتی پیدا ہوکر آخرت کی طرف توجہ ہوجائے۔
(3) قبروں کی زیارت جس طرح دن کے وقت کی جا سکتی ہے۔ رات کو بھی جائز ہے۔
(4) قبروں کی زیارت کا مقصد فوت ہونے والوں کےلئے دعا ہے۔ فوتشدگان سے کچھ مانگنا جائز نہیں۔ کیونکہ وہ لوگ نہ ہماری باتیں سنتےہیں۔ نہ ہماری درخواست قبول کرسکتے ہیں۔
(5) السلام و علیکم کہنے سے انھیں سنانا مقصود نہیں بلکہ ان کے لئے دعا اور ان کے حال سے عبرت حاصل کرنا مقصود ہے۔ کہ جس طرح یہ لوگ کل ہمارے ساتھ اٹھتے بیٹھتے تھے۔ آج قبروں میں پڑے ہیں۔ ہم پر بھی عنقریب وہ وقت آنے والا ہے۔ جب ہم اسی طرح دفن ہوجایئں گے اور دوسروں کی دعاؤں کے محتاج ہوں گے۔
(6) دعا کا آخری جملہ نماز جنازہ کی دعاؤں میں شامل ہے وہاں پڑھنا درست ہے۔ دیکھئے: (سنن ابن ماجة، حدیث:1498)
الحکم التفصیلی:
الارزاہ الغلیل:776
قلت : كيف أقول لهم يا رسول الله ؟ قال : قولي : السلام على أهل الديار من المؤمنين والمسلمين ويرحم الله المستقدمين منا والمستأخرين وإنما إن شاء الله بكم الاحقون ) . أخرجه مسلم ( 3 / 64 ) والنسائي ( 1 / 286 - 287 ) وأحمد وله طريق أخرى ( 6 / 221 ) عنها نحوه وزيادة :
( اللهم لا تحرمنا أجرهم ولا تفتنا بعدهم ) . رواه ابن ماجه ( 1546 ) والطيالسي ( رقم 1429 ) وأحمد ( 6 / 76 ، 71 ، 111 ) وابن السني وفيه شريك القاضي وهو سئ الحفظ وقد اضطرب في سنده كما بينته في " التعليقات الجياد على زاد المعاد
الإرواء (3 / 237) ، الروض النضير (775)