تشریح:
فوائد و مسائل:
(1) اس حدیث میں جس آیت کی طرف اشارہ ہے وہ یوں ہے۔ ﴿يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا جَاءَكَ الْمُؤْمِنَاتُ يُبَايِعْنَكَ عَلَىٰ أَن لَّا يُشْرِكْنَ بِاللَّهِ شَيْئًا وَلَا يَسْرِقْنَ وَلَا يَزْنِينَ وَلَا يَقْتُلْنَ أَوْلَادَهُنَّ وَلَا يَأْتِينَ بِبُهْتَانٍ يَفْتَرِينَهُ بَيْنَ أَيْدِيهِنَّ وَأَرْجُلِهِنَّ وَلَا يَعْصِينَكَ فِي مَعْرُوفٍ ۙ فَبَايِعْهُنَّ وَاسْتَغْفِرْ لَهُنَّ اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴾ (الممتحنة:12) ’’اے نبی ﷺ! جب آپ کے پاس مسلمان عورتیں آیئں (اور) وہ آپ سے ان باتوں پر بعیت کریں۔ کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھرایئں گی۔ چوری نہیں کریں گی۔ بدکاری نہیں کریں گی۔ اپنی اولاد کو قتل نہیں کریں گی۔ اور کوئی ایسا بہتان نہیں باندھیں گی جو خود اپنے ہاتھوں اور پیروں کے سامنے گھڑ لیں۔ اور کسی نیک کام میں تیری بے حکمی نہیں کریں گی۔ تو آپ ان سے بعیت لے لیا کریں۔ اور ان کےلئے اللہ سے مغفرت طلب کریں۔ بے شک اللہ تعالیٰ بخشنے والا معاف کرنے والا ہے۔‘‘
(2) حدیث کا مطلب یہ ہے کہ نوحہ سے پرہیز بھی ان نیک کاموں میں شامل ہے۔ جن احکام کی تعمیل کا وعدہ مسلمان عورتوں نے اللہ کے نبی کریمﷺ سے کیا ہے۔
(3) نوحہ سے مراد ہے مرنے والے کی خوبیاں ذکر کرکے اور اپنے غم کے اظہار کےلئےاس طرح روتی تھیں۔ اور اسے مرنے والے سے محبت کا اظہار سمجھا جاتا تھا۔ اسلام نے اس غلط رسم سختی سے منع کیا ہے۔ صرف آنکھوں سے آنسو بہانا جائز ہے۔ یا کوئی ایک آدھ جملہ کہہ دیا جائے۔ جو نوحہ کے انداز سے نہ ہو تو وہ جائز ہے۔ جب رسول اللہ ﷺ کے فرزند حضرت ابراہیم علیہ السلام کی وفات ہوئی تو نبی ﷺ اشک بار تھے۔ حضرت عبد الرحمان بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تعجب ہوا تو نبی کریم ﷺ نے وضاحت کرتے ہوئے فرمایا ’’آنکھ سے آنسو بہتے ہیں دل غمگین ہے۔ لیکن ہم زبان سے وہی کچھ کہیں گے۔ جس سے اللہ راضی ہو ابراہیم! ہمیں تیری جدائی کا بہت غم ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، الجنائز، باب قول النبی ﷺ إِنَّا بِكَ لَمَحْزُنُون، حدیث:1303)