تشریح:
فوائد و مسائل:
(1) مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے۔ اور مذید لکھا ہے کہ اس کی اصل الفاظ کے تھوڑے سے فرق کے ساتھ صحیح بخاری کی حدیث: 1241، 1242) میں ہے۔ علاوہ ازیں دیگر محققین نے مذکورہ روایت کو صحیح کہا ہے۔ شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ اس کی بابت لکھتے ہیں۔ کہ مذکورہ روایت وحی کے ذکر کے بغیر صحیح ہے۔ تفصیل کے لئے دیکھئے: (الموسوعة الحدیثیة مسند الإمام أحمد:356،355/41) وصحیح سنن ابن ماجة للألبانی، رقم: 1329 وسنن ابن ماجة للدکتور بشار عواد، حدیث:1627) الحاصل مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود قابل عمل اور قابل حجت ہے۔
(2) رسول اللہﷺ کی حیات مبارکہ کے آخری ایام میں حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسلسل حاضر خدمت رہے تھے۔ اور رسول اللہ ﷺ كی بیماری کے ایام میں نماز کی امامت کے فرائض انجام دیتے رہےتھے۔ حتیٰ کہ سوموار کے دن فجر کی نماز بھی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اقتداء میں ادا کی گئی۔ اس کے بعد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کسی کام کے سے اپنے گھر تشریف لے گئے جو عوالی میں مقام سخ پر واقع تھا۔ وہیں انھیں رسول اللہﷺ کی رحلت کی خبر ملی
(3) صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کا یہ عقیدہ نہیں تھا کہ رسول اللہ ﷺ کو موت نہیں آ سکتی۔ لیکن وہ حضرات اچانک صدمے کی وجہ سے اوسان کھوبیٹھے تھے۔ وفات نبویﷺ کا سانحہ ان کے لئے ناقابل برداشت تھا۔ اس ذہنی کیفیت میں بعض حضرات کی زبان سے اس قسم کی باتیں نکل گئیں۔
(4) اس واقعے سے ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی علو شان اور عظیم مرتبے کا اظہار ہوتا ہے کہ اس عظیم سانحہ کے وقت انھوں نے امت کی قیادت اور رہنمائی کا فریضہ انجام دیا۔ جس کے لئے ان حالات میں انتہائی قوت برداشت، صبر، حوصلے اورتدبیر کی ضرورت تھی۔
(5) یہ بھی حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حکمت تھی کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے الجھنے کی بجائے ایک طرف ہوکر اپنی بات شروع کردی۔ جس سے حاضرین کی توجہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف سے ہٹ گئی۔ اور اس معاملے پرآسانی سے قابو پا لیا گیا۔
(6) حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بغیر کسی تمہید کے اصل بات شروع کردی۔ کیونکہ حالات کا تقاضا یہی تھا۔ ساتھ ہی قرآن مجید کی وہ آیت تلاوت کی جو اس موقعے کے لئے مناسب ترین تھی۔ علمائے کرام کو چاہیے کہ کسی بھی وقتی معاملے میں غور وفکر کے بعد صحیح رائے قائم کرنے کی کوشش کریں۔ اگرچہ وہ رائے عوام الناس کی سوچ کے خلاف ہواور اسے دلائل سے واضح کریں۔ علماء کا فرض عوام کی رہنمائی اور قیادت کرنا ہے۔ ان کے پیچھے چلنا نہیں۔
(7) حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جب اپنی جذباتی کیفیت کی غلطی کا احساس ہوا تو انھوں نے فوراً صحیح بات کو قبول کرلیا۔ علماء کا صرف یہی فرض نہیں کہ حکام کی ہر صحیح اورغلط بات کی مخالفت کریں بلکہ صحیح بات کی تایئد کرنا اور اس پر عمل کے سلسلے میں ممکن عملی تعاون پیش کرنا بھی ضروری ہے۔
(8) صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین معصوم عن الخطا نہیں تھے۔ لیکن رسول اللہ ﷺ کی تربیت کا اثر تھا۔ کہ جب انھیں اپنی غلطی کا احساس ہوجاتا تو فوراً اپنے موقف سے رجوع فرما لیتے تھے۔ مسلمانوں اور خصوصاً علمائے کرام کی بھی یہی عادت ہونی چاہیے۔