تشریح:
فوائد ومسائل:
(1) رسول اللہ ﷺ کی وفات صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کے لئے ایک بہت بڑا حادثہ تھا۔ جس پر ان کے غم کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے یہ الفاظ بھی ان کےحزن وغم کا اظہا ہیں۔
(2) فرشتوں کو کسی کی موت کی خبردینے کی ضرورت نہیں۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے کلام کا یہ مطلب ہے کہ یہ غم صرف انسانوں کا غم نہیں اس غم میں تو فرشتے بھی شریک ہیں۔
(3) رب کا قرب حاصل ہونے کا مطلب یہ ہے کے پہلے روحانی درجات کی بلندی کا شرف حاصل تھا۔ اب تو آپ کی روح مبارک بھی اللہ کے پاس جنت الفردوس میں چلی گئی ہے۔
(4) حضرت فا طمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ان الفاظ کو بین یا مرثیہ نہیں سمجھا جا سکتا کیونکہ انھوں نے اہل جاہلیت کی طرح سینہ کوبی نہیں کی۔ گریبان چاک نہیں کیا بلکہ تنہائی میں یا چند افراد کی موجودگی میں آہستہ آواز میں اپنے غم کا اظہار کیا ہے۔
(5) حضرت ثابت رحمۃ اللہ علیہ بھی جب یہ غم ناک واقعہ بیان فرماتے تھے تو شدید متاثر ہوتے تھے۔ اور رسول اللہ ﷺ کی وفات کے ذکر پر غمگین ہوجاتے تھے۔ کیونکہ انھیں آپﷺ کی زیارت کا شرف حاصل نہیں ہوا۔
(6) وفات نبوی ﷺ انتہائی حزن وملال کا باعث واقعہ ہے۔ لہٰذا 12 ربیع الاول کو خوشی منانا انتہائی نا مناسب ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کو رسول اللہ ﷺ سے انتہائی محبت تھی۔ پھر بھی انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی ولادت اور وفات کے دن کو عید یا سوگ کے دن کے طور پر نہیں منایا۔ مشہور لوگوں کی سالگرہ اور برسی منانا مسلمانوں کا طریقہ نہیں بلکہ یہ رواج ہمارے معاشرے میں ہندووں اور یورپی عیسایئوں سے آیا ہے۔غیر مسلموں کے اس قسم کے رسم ورواج سے سختی سے اجتناب کرنا چاہیے۔