تشریح:
فوائد و مسائل:
(1) نفلی عبا دات کی مقدار کم بیش ہو سکتی ہے آدمی چاہے تو زیا دہ نوا فل ادا کر ے چاہے تو کم رکعتیں پڑھ لے اس طرح چاہے زیادہ روزے رکھے چاہے کم رکھ لے البتہ ان امور سے اجتناب کرے جن سے رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا ہے-
(2) حضرت داؤد علیہ السلام کے انداز پر نفلی روزے رکھنا سب سے افضل ہے اس سے سمجھا جا سکتا ہے کہ اسے زیادہ نفلی روزے رکھنے سے ثواب کم ہو جا ئے گا۔
(3) حضرت داؤد علیہ السلام والے روزے اس لئے افضل ہیں کہ اس طریقے سے انسا ن کو جسم کا اہل و عیا ل کا اور دوسرے لو گو ں کا وہ حق ادا کر نے کا بھی مو قع مل جا تا ہے جو ہمیشہ روزے رکھنے کی صورت میں ادا نہیں کیا جا سکتا اور اللہ کی عبا دت کر کے ثواب بھی حا صل ہو جا تا اور ایک لحا ظ سے دائمی عمل بھی بن جا تا ہے جو اللہ کو بہت پسند ہے
(4) نماز تہجد رات کے کسی حصے میں ادا کی جا سکتی ہے تا ہم مذکورہ بالا صورت افضل ہے کیونکہ اس میں بھی جسم کے حق اور اللہ کے حق کا ایک خو بصورت توازن مو جود ہے
(5) داؤد علیہ السلام والی نماز کی صورت یہ ہے مثلاً ایک رات با رہ گھنٹے کی ہو تو اس میں چھ گھنٹے آرام کیا جا ئے پھر اٹھ کر چار گھنٹے نماز تہجد اور عبا دت میں گزارے جا ئیں پھر دو گھنٹے تک آ رام کر لیا جا ئے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين. وقد أخرجاه) .
إسناده: حدثنا الحسن بن علي: ثنا عبد الرزاق: ثنا معمر عن الزهري عن ابن المسيب وأبي سلمة عن عبد الله بن عمرو بن العاص.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين؛ وقد أخرجاه كما يأتي. والحديث في "مصنف عبد الرزاق " (4/294/7862) ... بإسناده ومتنه.
وعنه: أخرجه أحمد أيضاً (2/187- 188) : ثنا عبد الرزاق... به.
وأخرجه البخاري (4/178- 179) ، ومسلم (3/162) ، والنسائي (1/325)
من طرق أخرى عن الزهري... به.
وكذلك أخرجه الطحاوي (1/342) .
وأخرجه هو، ومسلم والنسائي، وابن خزيمة (2110) ، والبيهقي (4/299) ،
وأحمد (2/200) من طرق أخرى عن أبي سلمة وحده... نحوه، يزيد بعضهم على بعض.
الإرواء (451 و 945)