تشریح:
فوائد ومسائل:
(1) گزشتہ دور میں ہر شخص اپنے جانوروں کو پانی پلانے کے لیے چشمے پر لے جاتا تھا، یا اپنے اپنے کنویں پر پانی پلایا جاتا تھا، خاص طور پر اونٹوں کے لیے خاص اہتمام کیا جاتا تھا اور ہر شخص اپنے اونٹوں کے لیے حوض تیار کرتا تھا جس کے قریب ہی اونٹوں کا باڑا ہوتا تھا۔ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ وصول کرنے والے کو چاہیے کہ جہاں جہاں لوگوں کے ریوڑ چرتے چگتے ہیں وہاں وہاں جا کر زکاۃ وصول کی جائے۔ زکاۃ دینے والوں کو یہ حکم نہ دیا جائے کہ وہ اپنے مویشی لے کر عامل (زکاۃ وصول کرنے والے افسر) کے پاس آئیں اور وہاں زکاۃ ادا کریں۔ اس میں جانوروں کے مالکوں کے لیے مشقت ہے جبکہ عامل کے لیے ہر جگہ پہنچنا آسان ہے۔ اسلامی شریعت میں عوام اور رعایا کی سہولت کا زیادہ سے زیادہ خیال رکھا گیا ہے۔
الحکم التفصیلی:
قال الألباني في " السلسلة الصحيحة " 4 / 382 :
أخرجه أحمد ( 2 / 184 ) : حدثنا عبد الصمد عن عبد الله بن المبارك حدثنا أسامة
ابن زيد عن عمرو بن شعيب عن أبيه عن عبد الله بن عمرو أن رسول الله صلى
الله عليه وسلم قال : فذكره . و أخرجه الطيالسي ( 2264 ) : حدثنا ابن المبارك
به إلا أنه شك فقال : " أو عند أفنيتهم " . و أخرجه البيهقي ( 4 / 110 ) من
طريقه و قال : " شك أبو داود " و خالفهما في إسناده محمد بن الفضل فقال : حدثنا
ابن المبارك عن أسامة بن زيد عن أبيه عن ابن عمر مرفوعا به . أخرجه ابن ماجة (
1806 ) .
قلت : و محمد بن الفضل هو السدوسي الملقب بـ " عارم " ، و هو ثقة ، و لكنه كان
اختلط ، فلا يعتد بمخالفته للثقتين المتقدمين : عبد الصمد و هو ابن عبد الوارث
و الطيالسي . و إسنادهما حسن ، رجاله ثقات ، و في أسامة بن زيد و هو أبو زيد
الليثي خلاف ، و هو حسن الحديث . و أما قول البوصيري في " الزوائد " ( 133 / 2
) : " و إسناده ضعيف لضعف أسامة " .
فأقول : لعله أراد أنه أسامة بن زيد العدوي ، فإنه ضعيف و الأقرب ما ذكرنا أنه
الليثي ، فإنه هو الذي ذكر في الرواة عن عمرو بن شعيب دون العدوي . و كلاهما من
شيوخ ابن المبارك . و الله أعلم . و للحديث شاهد يرويه عبد الملك بن محمد بن
عمرو بن حزم عن عبد الله بن أبي بكر عن عمرو عن عائشة مرفوعا نحوه . أخرجه
البيهقي . و عبد الملك هذا لم أعرفه .