قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

سنن ابن ماجه: كِتَابُ الزَّكَاةِ (بَابُ صَدَقَةِ الزُّرُوعِ وَالثِّمَارِ)

حکم : حسن صحیح 

1818. حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ عَفَّانَ قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ أَبِي النَّجُودِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، قَالَ: بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْيَمَنِ، «وَأَمَرَنِي أَنْ آخُذَ مِمَّا سَقَتِ السَّمَاءُ، وَمَا سُقِيَ بَعْلًا، الْعُشْرَ، وَمَا سُقِيَ بِالدَّوَالِي نِصْفَ الْعُشْرِ» ، قَالَ يَحْيَى بْنُ آدَمَ: الْبَعْلُ، وَالْعَثَرِيُّ، وَالْعَذْيُ هُوَ الَّذِي يُسْقَى بِمَاءِ السَّمَاءِ، وَالْعَثَرِيُّ: مَا يُزْرَعُ بِالسَّحَابِ وَالْمَطَرِ خَاصَّةً، لَيْسَ يُصِيبُهُ إِلَّا مَاءُ الْمَطَرِ، وَالْبَعْلُ: مَا كَانَ مِنَ الْكُرُومِ قَدْ ذَهَبَتْ عُرُوقُهُ فِي الْأَرْضِ إِلَى الْمَاءِ، فَلَا يَحْتَاجُ إِلَى السَّقْيِ، الْخَمْسَ سِنِينَ وَالسِّتَّ، يَحْتَمِلُ تَرْكَ السَّقْيِ، فَهَذَا الْبَعْلُ، وَالسَّيْلُ: مَاءُ الْوَادِي إِذَا سَالَ، وَالْغَيْلُ: سَيْلٌ دُونَ سَيْلٍ

مترجم:

1818.

حضرت معاذ بن جبل ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے مجھے یمن بھیجا اور مجھے حکم دیا کہ میں بارش سے سیراب ہونے والی (شرعی پیداوار) سے اور نمی سے سیراب ہونے والی (پیداوار) سے دسواں حصہ وصول کروں اور جسے آلات کے ذریعے سے (کنویں وغیرہ سے) نکال کر پانی دیا جائے، اس میں سے بیسواں حصہ وصول کروں۔ امام یحییٰ بن آدم رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: بعل‘ عشري‘ عذي‘ ان الفاظ کا مطلب بارش سے سیراب ہونے والی ہے۔ خاص طور پر عشری اس فصل کو کہتے ہیں جو صرف بادل اور بارش سے سیراب ہو، اسے بارش کے علاوہ کوئی پانی نہ ملے، اور بعل انگور کی ان بیلوں کو کہتے ہیں جن کی جڑیں سطح زمین کے نیچے پانی تک جا پہنچیں، انہیں پانی دینے کی ضرورت نہیں ہوتی، انہیں پانچ چھ سال تک بھی پانی نہ دیا جائے تو برداشت کر لیتی ہیں تو یہ چیز بعل کہلاتی ہے۔ سیل (سیلاب) وادی میں بہہ کر آنے والے پانی کو کہتے ہیں۔ اور غیل (ادنیٰ سیلاب) بھی سیلاب ہی ہوتا ہے لیکن وہ سیل سے کم ہوتا ہے۔