تشریح:
فوائد و مسائل:
(1) مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے دیگر شواہد کی بنا پر حسن قرار دیا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیئے: (الموسوعة الحدیثة مسند الإمام أحمد: 6؍195، 196، 197، والصحیحة، رقم:499)۔
(2) تھوڑی بہت رقم بھی موجود ہو تو سوال کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔
(3) سوال سے اجتناب ضروری ہونے کے لیے صاحب نصاب ہونا شرط نہیں کیونکہ چاندی میں زکاۃ کا نصاب دو سو درہم ہے، جب کہ رسول اللہ ﷺ نے پچاس درہم چاندی کے مالک کو مانگنے کی اجازت نہیں دی۔
(4) حدیث میں چاندی اور سونے کا ذکر کیا کیا ہے کیونکہ اس وقت درہم و دینار چاندی اور سونے کے ہوتے تھے۔ ایک درہم موجودہ وزن کے اعتبار سے 2.975 یا 3.06 گرام چاندی کے مساوی ہوتا ہے۔ اس اعتبار سے پچاس درہم تقریباً 13 تولے چاندی کے برابر ہوں گے۔ اس کی موجودہ قیمت ہر وقت معلوم کی جاسکتی ہے۔
(5) بعض صورتوں میں ایک مال دار آدمی کے لیے بھی سوال کرنا جائز ہو جاتا ہے۔ ان صورتوں کا ذکر اگلے باب میں آ رہا ہے۔
الحکم التفصیلی:
قال الألباني في "السلسلة الصحيحة" 1 / 818 :
أخرجه أبو داود ( 1626 ) و النسائي ( 1 / 363 ) و الترمذي ( 1 / 126 )
و الدارمي ( 1 / 386 ) و ابن ماجه ( 1840 ) و الطحاوي ( 1 / 306 ) و الحاكم
( 407 ) و أحمد ( 1 / 388 ، 441 ) و ابن عدي ( 69 / 1 ، 73 / 2 ) من طريق حكيم بن جبير عن محمد بن عبد الرحمن بن يزيد عن أبيه عن عبد الله بن مسعود قال :
قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : فذكره . و السياق لابن ماجه و زاد هو و غيره : " فقال رجل لسفيان : إن شعبة لا يحدث عن حكيم بن جبير ، فقال سفيان : قد حدثناه زبيد عن محمد بن عبد الرحمن بن يزيد " .
قلت : حكيم بن جبير ضعيف ، لكن متابعة زبيد و هو ابن الحارث الكوفي تقوي الحديث فإنه ثقة ثبت ، و كذلك سائر الرواة ثقات ، فالإسناد صحيح من طريق زبيد .
قال الترمذي " حديث حسن " .