تشریح:
(1) اس حدیث کو اس باب میں بیان کرنے کا مقصد یہ ثابت کرنا ہے کہ اللہ تعالیٰ سمیع یعنی سننے والا ہے اور سننا اس کی صفت ہے، لیکن اللہ کی صفات بندوں کی صفات کی طرح نہیں۔ ہلکی سے ہلکی آواز اس کے علم سے باہر نہیں کیونکہ اس کی دیگر صفات کی طرح سننے کی صفت بھی لا محدود ہے۔
(2) اس حدیث اور آیت میں جس خاتون کا ذکر کیا گیا ہے اس کا نام خولہ رضی اللہ عنہا ہے جو مالک بن ثعلبہ کی بیٹٰی تھیں، ان کے خاوند حضرت اوس بن صامت رضی اللہ عنہ نے ان سے ظہار کر لیا، اس وقت تک ظہار کے کالعدم ہونے کا حکم نازل نہیں ہوا تھا، اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو اپنے خاوند پر حرام ہو گئی ہے۔ اس نے اپنے حالات عرض کیے کہ جدائی کی صورت میں بہت سی مشکلات پیدا ہوں گی اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی، تب اللہ تعالیٰ نے سورہ مجادلہ میں اس کا حل نازل فرمایا۔ (سنن ابی داود، الطلاق، باب فی الظھار، حدیث:2214)
(3) ظہار کا مطلب ہے بیوی کو ماں سے تشبیہ دے کر خود پر حرام کر لینا، مثلاً: کوئی شخص اپنی بیوی سے کہتا ہے: تو میرے لیے اس طرح ہے جیسے میری ماں۔ اسلام سے قبل اس صورت میں مرد اور عورت کا تعلق ہمیشہ کے لیے منقطع ہو جاتا تھا اور بیوی کو واقعی ماں کے برابر سمجھ لیا جاتا تھا۔ سورہ مجادلہ میں واضح کیا گیا ہے کہ بیوی کو ماں کہنے سے وہ ماں نہیں بن جاتی، لیکن اس طرح کہنا گناہ کی بات ہے۔ یہ گناہ اس صورت میں معاف ہو سکتا ہے کہ ایک غلام آزاد کیا جائے، یہ ممکن نہ ہو تو مسلسل دو ماہ روزے رکھے جائیں، اگر درمیان میں ناغہ ہو جائے تو نئے سرے سے گنتی شروع کی جائے۔ یہ بھی نہ ہو سکے تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلایا جائے، جب تک یہ کفارہ ادا نہ کر لیا جائے، میاں بیوی کو صنفی تعلقات قائم کرنے کی اجازت نہیں۔
(4) بعض لوگ کسی اجنبی عورت کو ماں، بہن یا بیٹی کہہ دیتے ہیں یا کوئی عورت کسی مرد کو اپنا بھائی یا بیٹا قرار دے لیتی ہے، حالانکہ اس سے کوئی حقیقی محرم والا رشتہ نہیں ہوتا۔ پھر اس منہ بولے رشتے کی بنا پر آپس میں پردہ ختم کر دیا جاتا ہے، یہ سب غلط اور شرعا گناہ ہے جس سے اجتناب کرنا اور توبہ کرنا ضروری ہے۔
(5) نبی صلی اللہ علیہ وسلم حکم الہی کے پابند تھے، اپنی مرضی سے حلال و حرام نہیں فرما سکتے تھے۔ جب وحی نازل ہوئی تو حکم بیان فرما دیا۔
الحکم التفصیلی:
قلت : وما رجحه أبو داود من العددين أقرب إلى الصواب ولكن ذلك ليس معناه أن إسناد الحديث صحيح كما هو معلوم عند العارفين بهذا العلم الشريف . فقول المصنف رحمه الله ( رواه أ بو داود وصححه ) ليس كما ينبغي وكيف يصححه وفيه معمر بن عبد الله بن حنظلة وهو مجهول قال في ( الميزان ) : ( في زمن التابعين ) يعرف وذكره ابن حبان في ( ثقاته ) . . قلت : ما حدث عنه سوى ابن إسحاق بخبر مظاهرة أوس بن الصامت ) . وقال الحافظ في ( التقريب ) : ( مقبول ) . يعني عند المتابعة وإلا فلين الحديث كما نص عليه في المقدمة ومع ذلك فقد حسن إسناد حديثه هذا في ( الفتح ) ( 9 / 382 ) : قلت : وقد ذكر البيهقي له شاهدا من طريق محمد بن أبي حرملة عن عطاء بن يسار : ( أن خويلة بنت ثعلبة كانت تحت أوس بن الصامت فتظاهر منها وكان به لمم فجاءت رسول الله صلى الله عليه وسلم . . . ( الحديث ) . وليس فيه ذكر العرق . وقال البيهقى : ( هذا مرسل وهو شاهد للموصول قبله . والله أعلم ) . قلت : وله شاهد آخر مرسل أيضا عن صالح بن كيسان . أخرجه ابن سعد في ( الطبقات ) ( 8 / 275 - 276 ) وإسناده صحيح
وشاهد ثالث موصول مختصر من طريق تميم بن سلمة السلمي عن عروة قال . قالت عائشة رضى الله عنها : ( تبارك الذي وسع سمعه كل شئ إني لأسمع كلام خولة بنت ثعلبة ويخفى علي بعضه وهي تشتكى زوجها إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم وهي تقول : يا رسول الله أكل شبابي ونثرت له بطني حتى إذا كبرت سني وانقطع له ولدي ظاهر منى اللهم إني أشكو إليك قالت عائشة : فما برحت حتى نزل جبريل عليه السلام بهؤلاء الآيات ( قد سمع الله قول التي تجادلك في زوجها ) قال : وزوجها أوس بن الصامت ) . أخرجه ابن ماجه ( 2063 ) والحاكم ( 2 / 4 8 1 ) وقال : ( صحيح الإسناد ) . ووافقه الذهبي وهو كما قالا وأصله في ( البخاري ) والنسائي ( 2 / 103 - 104 ) . وجملة القول أن الحديث بهذه الشواهد صحيح . والله أعلم