تشریح:
فوائد ومسائل:
(1) مذکورہ روایت کو ہارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے تاہم حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنما کا یہ عمل اور ان کا یہ کہنا کہ رسول اللہ ﷺ بھی ایسے کیا کرتے تھے جناب نافع کے واسطے سے صحیح اور حسن سند کے ساتھ مسند احمد، سنن ابی داؤد، ابن حبان، طبرانی صغیر اور بیہقی میں مروی ہے جسے دیگر محققین نے بھی صحیح اور حسن قرار دیا ہے لیکن ان روایات میں ڈھول کی آواز کی بجائے بانسری کی آواز کا ذکر ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیئے: (الموسوعة الحدیثیة مسندالإمام أحمد: 8؍132، 133، 134، وسنن ابی داؤد، الأدب، باب کراہیة الغناء والزمر، حدیث:4924، 4926، والطبرانی: 1؍131، وصحیح ابن حبان، حدیث: 2013، والبیہقی: 10؍222) لہٰذا صحیح احادیث سے بھی اس بات کی تائید ہوئی کہ رسول اللہ ﷺ کو ساز کی آواز سے نفرت تھی۔
(2) گناہ والی آواز سے جس قدر ممکن ہو بچنا چاہیے۔
(3) دف کے سوا کوئی ساز بجانا سننا جائز نہیں۔
(4) اس سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ دف کی اجازت سے جو لوگ ڈھول ڈھمکوں ساز و موسیقی اور ہر قسم کے راگ و رنگ کا جواز کشید کرتے ہیں وہ یکسر غلط ہے۔ دف کے علاوہ مذکورہ تمام قسمیں یکسر ناجائز اور مطلقا حرام اور شیطانی کام ہیں۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: ’’مسنون نکاح اور شادی بیان کی رسومات‘‘ مولفہ حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ