تشریح:
(1) اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ عزوجل کی بعض صفات بیان فرمائی ہیں، ان پر ایمان رکھنا ضرروی ہے۔
(2) عقیدے کے مسائل بہت اہم ہیں، لہٰذا انہیں وضاحت سے بیان کرنا چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی اہمیت کے پیش نظر خطبے میں انہیں بیان فرمایا تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ سنیں اور سمجھ سکیں۔
(3) نیند اور آرام مخلوقات کی ضرورت ہے تاکہ کام کرنے سے جوتھکاوٹ اور کمزوری پیدا ہوتی ہے، اس کا مداوا ہو جائے، اللہ تعالیٰ حَیّ و قیوم ہے، جو تمام مخلوقات کو قائم رکھنے والا ہے، اس لیے نہ تو اللہ تعالٰی کو تکھاوٹ لاحق ہوتی ہے، نہ آرام اور نیند کی ضرورت پیش آتی ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالی نے فرمایا: ﴿وَلَقَد خَلَقنَا السَّمـوتِ وَالأَرضَ وَما بَينَهُما فى سِتَّةِ أَيّامٍ وَما مَسَّنا مِن لُغوبٍ﴾ (ق:38) ’’یقینا ہم نے آسمان و زمین، اور جو کچھ ان کے درمیان ہے، سب کو (صرف) چھ دن میں پیدا کیا اور ہمیں تکان نے چھوا تک نہیں۔‘‘ اس طرح قرآن مجید نے بائبل کی غلطی کی اصلاح کر دی، بائبل میں عہد قدیم کی کتاب خروج، باب:20، فقرہ:11 کے الفاظ یہ ہیں: کیونکہ خداوند نے چھ دن میں آسمان اور زمین اور سمندر اور جو کچھ ان میں ہے، وہ سب بنایا، اور ساتوین دن آرام کیا۔ اس لیے خداوند نے سبت کے دن کو برکت دی اور اسے مقدس ٹھہرایا۔
(4) میزان (ترازو) کو جھکانے اور بلند کرنے کا ایک مطلب یہ بیان کیا گیا ہے کہ اپنی حکمت کے مطابق کسی کو روزی کم دیتا ہے، کسی کو زیادہ، ایک مطلب یہ بیان کیا گیا ہے کہ اعمال اس کی طرف بلند ہوتے ہیں، اور رزق اس کے پاس سے نازل ہوتا ہے، جس طرح تولتے وقت ترازو کے پلڑے اوپر نیچے ہوتے ہیں۔
(5) اعمال اللہ ہی کے سامنے پیش ہوتے ہیں، کسی اور کے سامنے نہیں، لہذا عمل کرتے وقت اس کی رضا پیش نظر رہنی چاہیے۔
(6) اعمال کی یہ پیشی مختلف اعتبارات سے الگ الگ مدت کے بعد ہوتی ہے، جیسے اس حدیث میں ہے کہ چوبیس گھنٹے میں دو بار عمل پیش ہوتےہیں، دوسری حدیث میں ہے کہ سوموار اور جمعرات کو بندوں کے اعمال اللہ کے حضور پیش کیے جاتے ہیں۔ (صحيح مسلم، البر و الصلة والادب، باب النهي عن الشحناء والتهاجر، حديث:2565) والله أعلم.
(7) بندہ اس فانی جسم کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی زیارت نہیں کر سکتا۔ نور کا پردہ اس کے اور مخلوق کے درمیان حائل ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا، کیا آپ نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ نور ہے، میں اسے کیسے دیکھ سکتا ہوں؟ ایک حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا: میں نے ایک نور دیکھا ہے۔ (صحيح مسلم، الايمان، باب في قوله عليه السلام: نور أني أراه، وفي قوله: رأيت نورا، حديث: 178) یعنی صرف نور کا پردہ دیکھا ہے، ذات اقدس کی زیارت نہیں ہوئی، البتہ جنت میں مومنوں کو اللہ تعالیٰ کی زیارت ہو گی جیسے گزشتہ احادیث میں بیان ہوا۔
(8) اس فانی کائنات کی کوئی چیز اللہ کی تجلی برداشت نہیں کر سکتی۔ جب اللہ تعالیٰ نے کوہ طور پر تجلی فرمائی، تو پہاڑ بھی اسے برداشت نہ کر سکا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے ﴿فَلَمّا تَجَلّى رَبُّهُ لِلجَبَلِ جَعَلَهُ دَكًّا﴾ (الاعراف:143) ’’جب اس کے رب نے پہاڑ پر تجلی فرمائی تو اس (تجلی) نے اس کے پرخچے اڑا دیے۔‘‘