تشریح:
فوائد و مسائل:
(1) مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نےاسےصحیح قرار دیا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے: (الموسوعة الحدیثیة مسند الإمام أحمد: 13/ 320، 321، وسنن ابن ماجة بتحقیق الدکتور بشار عواد، حدیث:1969) بنابریں مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود قابل عمل اور قابل حجت ہے۔
(2) اگر کسی کی دو یا زیادہ بیویاں ہوں تو ممکن ہے قلبی میلان ایک کی طرف زیادہ ہو، لیکن یہ ناانصافی کا باعث نہیں بننی چاہیے۔
(3) مباشرت کرنےمیں میلان اور خواہش کے مطابق کمی بیشی ہو سکتی ہے لیکن یہ جائز نہیں کہ ایک کی صنفی ضرورت سےچشم پوشی کر لی جائے۔ اللہ کا ارشاد ہے، ﴿فَلَا تَمِيلُوا كُلَّ الْمَيْلِ فَتَذَرُوهَا كَالْمُعَلَّقَةِ﴾ (النساء: 129) ’’ایک کی طرف پوری طرح نہ جھک جاؤکہ دوسری کو (درمیان) میں لٹکتی ہوئی کی طرح چھوڑ دو‘‘
(4) دنیا کے اعمال کا نتیجہ قیامت میں بھی ظاہر ہوگا اور انہی اعمال کے مطابق جنت اور جہنم کے درجات میں بھی فرق ہوگا۔ انہی کےمطابق جنت کی نعمتیں اور جہنم کی سزائیں ہونگی۔
الحکم التفصیلی:
قلت : وقال الحاكم : ( صحيح على شرط الشيخين ) . ووافقه الذهبي وابن دقيق العيد كما نقله الحافظ في ( التلخيص ) ( 3 / 201 ) وأقره وقال : ( واستغربه الترمذي مع تصحيحه وقال عبد الحق : هو خبر ثابت لكن علته أن هماما تفرد به ) . قلت : وهذه علة غير قادحة ولذلك تتابع العلماء على تصحيحه . ثم قال : ( وفي الباب عن أنس أخرجه أبو نعيم في تاريخ أصبهان ) . قلت : أخرجه ( 2 / 300 ) من طريق محمد بن الحارث الحارثى ثنا شعبة عن عبد الحميد عن ثابت عن أنس به . قلت : وهذا إسناد ضعيف . من أجل الحارثي هذا قال الحافظ في ( التقريب ) : ( ضعيف ) . وعبد الحميد هذا هو ابن دينار البصري الزيادي وهو ثقة من رجال الشيخين .