تشریح:
فوائد و مسائل:
(1) اسلامی معاشرے میں یہ چیز اچھی نہیں سمجھی جاتی کہ عورت اپنے نکاح کے لیے خود کسی مرد سے درخواست کرے بلکہ صحیح طریقہ یہ ہے کہ درخواست عورت کے سرپرست کے ذریعے سے کی جائے۔ رسول اللہﷺ کی امتیازی شان اس لحاظ سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عجیب محسوس ہوئی کہ عورتیں خود ہی آکر کہہ دیتی ہیں کہ اللہ کے رسول ہم سے نکاح کرلیں۔
(2) نبئ اکرمﷺ امت کے تمام افراد کے سرپرست تھے بلکہ نبی ﷺ کا حق سرپرستوں سے بھی زیادہ تھا۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے: ﴿اَلنَّبِيُّ اَوْلیٰ بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنَ أَنْفُسِهِمْ﴾ (الأحزاب:6) ’’نبی مومنوں پر خود ان سے بھی زیادہ حق رکھتے والے ہیں۔‘‘
(3) رسول اللہﷺ کے لیے اللہ کی طرف سے یہ خصوصی رعایت تھی کہ آپ پرازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کے درمیان باری کی پابندی کرنا فرض نہیں تھا۔ اس کے باوجود نبیﷺ نے بیویوں میں انصاف کا اعلیٰ ترین نمونہ پیش فرمایا حتی کہ زندگی کے آخری ایام میں، جب مرض کی شدت اس قدر تھی کہ ایک ام المومنین کے گھرسے دوسری کے گھر میں چل کر جانا مشکل تھا، تب بھی آپ باری باری ان کے ہاں تشریف لے جاتے رہے حتی کہ امہات المومنین نے خود ہی عرض کیا کہ آپ جس گھر میں پسند فرمائیں آرام کریں۔ تب نبیﷺ دومردوں کے سہارے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ہاں تشریف لے گئے اور وہیں وفات پائی۔ اور انہی کے حجرۂ مبارک میں دفن ہوئے۔(صحیح البخاري، المغازي، باب مرض النبیﷺ ووفاته، حدیث:4442)