تشریح:
(1) سنت کے لغوی معنی طریقے کے ہیں، اچھا ہو یا برا۔ اس حدیث میں یہ لفظ اپنے لغوی معنی ہی میں استعمال ہوا ہے۔ علمِ حدیث اور اصولِ حدیث میں سنت میں وہ تمام چیزیں شامل ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہیں، خواہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد (قولی حدیث) ہو یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل (فعلی حدیث) یا ایسی چیز جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں کی گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے علم ہونے کے بعد اس سے منع نہیں فرمایا یا اس کی تردید نہیں فرمائی۔ (تقریری حدیث) فقہاء سنت سے مراد وہ اچھا کام لیتے ہیں جو فرض و واجب نہ ہو، اسے مستحب بھی کہا جاتا ہے، نیز سنت کا لفظ بدعت کے مقابلے میں بھی بولا جاتا ہے، یعنی وہ عقیدہ و عمل جس کا وجوب، استحباب یا جواز شریعت سے ثابت ہو اور بدعت سے مراد وہ عمل ہے جسے ثواب سمجھ کر کیا جائے، حالانکہ شریعت میں اس کی کوئی اصل نہ ہو۔
(2) اچھا طریقہ جاری کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ایک اچھے کام کی ضرورت تھی اور کوئی اسے نہیں کر رہا تھا۔ یا کسی سنت پر عمل متروک ہو چکا تھا، اس نے شروع کیا تو اسے دیکھ کر دوسروں نے اس پر عمل کرنا شروع کر دیا۔ یا کسی مشروع کام کو فروغ دینے کے لیے نیا طریقہ اختیار کیا محض اپنی رائے سے کسی کام کو اچھا قرار دے کر ایجاد کرنا بدعت ہے جس پر ثواب کی بجائے گناہ ہو گا۔
(3) برا طریقہ جاری کرنے کا مطلب یہ ہے کہ جو برائی پہلے کسی معاشرے میں موجود نہیں تھی، ایک آدمی نے وہ کام کیا، اسے دیکھ کر دوسرے بھی وہ کام کرنے لگے۔ ارشاد نبوی ہے: جو جان بھی ظلم سے قتل کی جاتی ہے، اس کے خون ناحق کا ایک حصہ آدم علیہ السلام کے پہلے بیٹے (قابیل) کے سر ہوتا ہے کیونکہ وہی پہلا شخص ہے جس نے قتل (ناحق) کا طریقہ جاری کیا۔ (صحيح بخاري، الاعتصام، باب اثم من دعا الي ضلالة، حديث:7321، وصحيح مسلم، القسامة، باب اثم من سن القتل، حدیث:1677)
(4) اس کی وضاحت اس پس منظر سے بھی ہوتی ہے، جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا: واقعہ یوں ہے کہ قبیلہ بنو مضر کے افراد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے جن کی ظاہری حالت قابل رحم تھی، انہیں مناسب لباس بھی دستیاب نہ تھا۔ اس موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو صدقہ دینے کی ترغیب دی، سب سے پہلے ایک انصاری صحابی درہم و دینار سے بھری ہوئی اتنی بھاری تھیلی لے کر حاضر ہوا کہ اس کے ہاتھ سے گری جا رہی تھی۔ اس کے بعد تو اتنی کثرت سے صدقات آئے کہ ایک طرف کھانے پینے کی چیزوں کا ڈھیر لگ گیا، دوسری طرف کپڑوں کا ڈھیر لگ گیا۔ اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ بالا ارشاد فرمایا: (صحيح مسلم، الزكاة، باب الحث علي الصدقة ولو بشق تمرة او كلمة طيبة...الخ، حديث:1016)
(5) دعوت و تبلیغ کا کام کرنے والوں کو احتیاط سے کام لینا چاہیے تاکہ وہ ضعیف اور موضوع احادیث کو دیکھ کر کسی ایسے کام کی دعوت دینا شروع نہ کر دیں جو صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے ورنہ نہ صرف محنت ضائع ہو جائے گی بلکہ وہ بہت بڑے گناہ کا بوجھ اٹھا لیں گے۔
(6) جب کسی کو گناہ کی طرف دعوت دی جاتی ہے تو شیطان عموماً یہ وسوسہ ڈالتا ہے کہ یہ گناہ کر لینے میں ہمارا کوئی نقصان نہیں، گناہ تو اس کو ہو گا جس نے ہمیں گناہ کی طرف بلایا ہے، یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ غلط کام کا ارتکاب کرنے والا اس کی ذمہ داری سے بچ نہیں سکتا، البتہ اسے گناہ کی طرف بلانے والے کا گناہ زیادہ شدید ہے، اس لیے وہ بھی اس مجرم کے جرم میں برابر کا شریک سمجھا جائے گا اور سزا کا مستحق ہو گا۔
(7) اس حدیث میں نیکی کی تبلیغ کرنے والوں کے لیے بہت بڑی خوش خبری ہے۔ ایک آدمی کی محنت سے جتنے آدمی کسی نیکی کو اختیار کریں گے، ان کے ثواب کے برابر اس کے نامہ اعمال میں ثواب خود بخود درج ہوتا چلا جائے گا۔
(8) ثواب اور گناہ، دعوت دینے والے کے حساب میں جمع ہونا خود بخود ہوتا ہے، اس میں عمل کرنے والے کے قصد یا نیت کا کوئی دخل نہیں، لہذا اس حدیث سے ایصال ثواب کے مروجہ تصور پر استدلال درست نہیں، ورنہ ایصال ثواب کی طرح ایصال گناہ کا تصور بھی تسلیم کرنا پڑے گا۔