تشریح:
فوائد و مسائل:
(1) حضرت ہلال بن امیہ نے اللہ پر توکل کیا اور اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کیا تو اللہ نے ان کو بری کردیا۔ اس سے صحابہ کرام کا ایمان اور اللہ کی ذات پر اعتماد ظاہر ہوتا ہے۔
(2) پانچویں گواہی کے الفاظ پہلی چارگواہیوں سے مختلف ہیں۔ اس کا مقصد ضمیر کو بیدار کرنا ہے تاکہ فریقین میں سے جو غلطی پر ہے، وہ اپنی غلطی کا اقرار کرلے اور دنیا کی سزا قبول کرکے آخرت کے عذاب سے بچ جائے۔
(3) پانچویں قسم واجب کرنے والی ہے، یعنی واقعی اللہ کی لعنت اوراس کے غضب کی موجب ہے، لہٰذا یہ سمجھ کر قسم کھائیں کہ جھوٹے پر واقعی اللہ کی لعنت اور اس کے غضب کا نزول ہوجائے گا۔
(4) قوم کی محبت و عصبیت انسان کو بڑے گناہ پر آمادہ کردیتی ہے، لہٰذا ضروری ہے کہ اس محبت کو شریعت کی حدود کے اندر رکھا جائے۔
(5) بعض اوقات انسان کسی دنیوی مفاد کے لیے گناہ کا ارتکاب کرتا ہے جب کہ اس مفاد کا حصول یقینی نہیں۔ اس عورت نے خاندان کو بدنامی سے بچانے کےلیے جھوٹی قسم کھائی لیکن رسول اللہﷺ کی بیان کردہ علامت کے مطابق بچہ پیدا ہونے سے وہ غلطی ظاہر ہوگئی جس کو چھپانے کےلیے اس نے اللہ کی غضب کو قبول کیا تھا۔
(6) اس قسم کی صورت حال میں بچے کی شکل و شباہت جرم کو ثابت کرتی ہے لیکن اگر قانونی پوریشن ایسی ہوکہ سزا نہ مل سکتی ہو تو جج قانون کی حد سے تجاوز نہیں کرسکتا۔
(7) ارشاد نبوی: ’’میرا اس عورت سے معاملہ (دوسرا) ہوتا۔‘‘ یعنی اس عورت کا جرم دار ہونا تو یقینی ہے لیکن چونکہ لعان کے بعد سزا نہیں دی جا سکتی، اس لیے اسے چھوڑ دیا ہے، ورنہ اسے ضروررجم کروا دیا جاتا۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين. وأخرجه البخاري بإسناد المصنف. وقال الترمذي: " حسن غريب ") إسناده: حدثنا محمد بن بشار: ثنا ابن أبي عدي: أخبرنا هشام بن حسان: حدثني عكرمة عن ابن عباس.
قال أبو داود: " وهذا مما تفرد به أهل المدينة؛ حديث ابن بشار- حديث هلال- ". قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين؛ وأخرجه البخاري كما يأتي. والحديث أخرجه البخاري (8/363) ... بإسناد المصنف ومتنه. وأخرجه آخرون من حديث هشام بن حسان، وهو مخرج في "الإرواء " (2098) .