تشریح:
فوائد و مسائل:
(1) اگر خاوند اور بیوی دونوں غلام ہوں، پھر عورت آزاد ہوجائے تو اسے اختیار حاصل ہوجاتا ہے کہ چاہے اس خاوند کے ساتھ رہے، چاہے تو الگ ہوجائے۔
(2) الگ ہونے کا فیصلہ کرلینے سے پہلا نکاح ختم ہوجاتا ہے لیکن نئے نکاح کے ساتھ وہ دوبارہ اکٹھے ہوسکتے ہیں۔ رسول اللہﷺ نے حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا کو رجوع کرنے کا مشورہ دیا، اس کا یہی مطلب ہے کہ دوبارہ نکاح کرلو۔
(3) اگر پہلے خاوند آزاد ہوجائے تو بیوی کو یہ اختیار نہیں ہوتا۔
(4) رسول اللہﷺ کے مشورے اور حکم میں شرعی طور پر فرق ہے۔ حکم ماننا فرض ہے اور مشورہ تسلیم کرنا فرض نہیں، مومن اپنے حالات کے مطابق فیصلہ کرسکتا ہے۔
(5) رسول اللہﷺ نے حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا کو رجو ع کا حکم نہیں دیا کیونکہ شریعت نے حضرت بریرہ ؓ کو جو حق دیا تھا، رسول اللہﷺ انہیں اس سے محروم نہیں کرسکتے تھے۔
(6) محبت اور نفرت فطری چیزیں ہیں۔ عام معاملات میں کسی کو کسی چیزسے محبت یا نفرت پر مجبور نہیں کیا جا سکتا، البتہ ارادے سے کی جانے والی محبت کا تعلق ایمان سے ہے جس میں اللہ عزوجل کی محبت، رسول اللہﷺ کی محبت اور نیک لوگوں سے محبت شامل ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط مسلم. وأخرجه البخاري)
إسناده: حدثنا موسى بن إسماعيل: ثنا حَمَاد عن خالد الحَذّاء عن عكرمة عن ابن عباس.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين؛ غير حماد- وهو ابن سلمة-، فهو على شرط مسلم وحده، لكنه قد توبع كما يأتي قريباً. والحديث أخرجه البخاري والدارمي والبيهقي وأحمد (1/215) من طرق أخرى عن خالد الحذاء... به. وأخرجه البخاري وابن الجارود والبيهقي وأحمد وابن سعد (8/260) من طرق أخرى عن عكرمة... به.
وفي رواية لابن سعد من طريق أيوب عن عكرمة... بلفظ:
" كان زوجُ بريرَةَ يومَ خُيِّرَتْ مملوكاً لبني المغيرة- يقال له: مغيث- أسود... " صحيح أبي داود (1934)