تشریح:
فوائد و مسائل:
(1) مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ یہی روایت سنن ابی داؤد میں بھی ہے وہاں پر لکھتے ہیں کہ یہ حدیث سنداً ضعیف ہے لیکن دیگر بہت سے شواہد کی بنا پر صحیح ہے دیکھیے: (سنن أبي داؤد (اردو ) مطبوعہ دار السلام .حدیث 3616) علاوہ ازیں مذکورہ روایت کو دیگر محققین نے بھی صحیح قرار دیا ہے لہذا مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باجود دیگر شواہد کی بنا پر قابل عمل اور قابل حجت ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعة الحديثة مسند الإمام أحمد :13/ 535، 16/ 238، والإرواء: 8/ 275، وسنن ابن ماجة بتحقيق الدكتور بشار عواد. رقم: 2329)۔
(2) اصل قانون یہی ہے کہ مدعی گواہ پیش کرے ورنہ مدعا علیہ قسم کھائے۔
(3) حدیث میں مذکورہ صورت میں دونوں فریق مدعی بھی ہیں اور مدعا علیہ بھی۔ ایسی صورت میں دونوں قسم کھانے کا حق رکھتے ہیں لہٰذا قرعہ اندازی سے فیصلہ کر لیا جائے کہ کون قسم کھائے۔
(4) بعض معاملات میں قرعہ اندازی سے فیصلہ کیا جاسکتا ہے۔